اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) نے کہا ہے کہ ملک میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات مفاہمت کا جزہیں، مفاہمت اور انتخابی عمل کو الگ الگ کرنا فلسطینی جماعتوں میں موجود اختلافات کی خلیج کو مزید گہرا کرنا ہے۔ غزہ میں حماس کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فتح کی ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے آئندہ انتخابات میں محمود عباس کو امید وار قراردینا اور صدر کی جانب سے خود اس کا انکار اس امرکا ثبوت ہے کہ فتح حماس کو بلیک میل کرنا چاہتی ہے۔ حماس نہ تو فتح کے پروپیگنڈے سے خوف زدہ ہے اور نہ ہی اس کی بلیک ملینگ میں آئے گی۔ بیان میں کہاگیا کہ حماس 2006ء کے پارلیمانی انتخابات میں مغربی کنارے اور غزہ میں 60 فیصد عوامی ووٹ لے کر کامیاب ہوئی، عوام کی اکثریت کے فیصلے کو نظرانداز کرکے مخصوص گروہ کا فیصلہ مسلط نہیں کیا جاسکتا۔ بیان میں کہاگیا کہ فلسطینی عوام کے موجودہ مسائل میں تنظیم آزادی فلسطین کے موجودہ متنازعہ ڈھانچے کا بڑ اکردار ہے۔ اس ڈھانچے کی اپنی کوئی آئینی حیثیت نہیں اور قاہرہ معاہدے کی رو سے فلسطینی تنظیم ازادی کا از سر نوتشکیل دیا جانا ضروری ہے۔ جب تک تنظیم آزادی کو از سرنو فعال اور اس کی تشکیل نو نہیں کی جاتی اس کے فیصلے بھی متنازعہ رہیں گے، ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔