انسانی حقوق کی عالمی تنظیم “ھیومن رائٹس واچ” نے فلسطین کے سنہ 1948ء کے مقبوضہ شہروں میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کی شدید مذمت کی ہے. انسانی حقوق گروپ کا کہنا ہے کہ فلسطینیوں کے مکانات کو بلا جواز منہدم کرنا اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی ہے اسے فوری طور پر بند ہونا چاہیے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق انسانی حقوق کی تنظیم کی مشرق وسطیٰ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ لیا ویٹسن نے بیت المقدس میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ اسرائیل کو تمام فلسطینیوں سے بلاامتیاز مذہب وملت مساوی سلوک کرنا چاہیے لیکن بدقسمتی سے عملاً ایسا نہیں. اسرائیل غیریہودی شہریوں بالخصوص فلسطینی عرب شہریوں کے ساتھ نسلی امتیاز برت رہا ہے، جو انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی رو سے سنگین جرم ہے. سارہ نے کہا کہ اسرائیل ان علاقوں میں یہودیوں کو مکانات کی تعمیر کے لیے کھلی چھٹی دے رہا ہے جہاں اسے یہودیوں کا فائدہ نظر آتا ہے. اس کے مقابلے میں صدیوں سے آباد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال باہر کیا جا رہا ہے. اسرائیلی حکومت اور فوج کایہ طرزعمل ریاستی دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے جس کی نہ صرف مذمت کی جانی چاہیے بلکہ اسرائیل کو اس طرح کے اقدامات سے روکا جانا چاہیے. انسانی حقوق کی اہلکار نے گذشتہ ایک برس کے دوران مقبوضہ فلسطین کے مختلف شہروں میں فلسطینیوں کے اسرائیل کے ہاتھوں گرائے گئے مکانات کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 13 دسمبرسنہ 2010ء کو “اللد” شہر میں صہیونی پولیس، فوج اور مقامی یہودی بلدیہ نے مل کر ایک درجن مکانات مسمار کر دیے جس کے نتیجے میں کم ازکم 70 افراد بے گھر ہو گئے. ان میں بیشتر بچے اور خواتین تھیں. اسی طرح اس ماہ 2 مارچ کو صہیونی پولیس اس شہر میں دوبارہ داخل ہوئی اور کئی مکانات مسمار کر کے درجنوں افراد کو مکان کی چھت سے محروم کر دیا گیا. سارہ کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کے مکانات مسمار کیے جانے کے رجحان میں تیزی کے ساتھ ان کے لیے نئے مکانات کی تعمیر کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے. ایک جانب اسرائیلی حکام یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے ہاں مکان کی تعمیر کے لیے اجازت نامے کا حصول آسان ترین کام ہے دوسری جانب فلسطینی اسرائیلی سرکاری دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتے ہیں لیکن انہیں متبادل کسی جگہ مکان بنانے کی اجازت نہیں دی جاتی.