اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل کا کہنا ہے کہ حماس آئندہ دنوں دیگر فلسطینی تنظیموں کی مشاورت سے اہم فیصلے کرے گی بالخصوص امریکا کی جانب سے سلامتی کونسل میں یہودی آبادکاری کے خلاف قرارداد ویٹو کیے جانے کے بعد اہم اقدامات اٹھانا ضروری ہیں۔ شام کے دارالحکومت دمشق کے یرموک کیمپ میں ’’مرکز برائے فلسطینی ورثہ و خواتین‘‘ کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مشعل نے کہا کہ آنے والے دنوں میں ہم بہت سی باتیں کریں گے اور بہت سے ایسے کام ہیں جو ہم نے کرنا ہیں۔ خالد مشعل نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ فلسطینیوں کی مصائب اور ناکامیوں کے بعد ہمارے ارد گرد ہونے والی حالیہ تبدیلیاں بڑی مبارک ہیں۔ اس اہم موقع پر ہمیں رک کر ہمیں جزوی معاملات سے بلند ہو کر ایک جامع پالیسی تشکیل دینا ہو گی، بعض لوگ ہمیں جزوی معاملات کے گرداب میں ہی پھنسا رہنا دیکھنا چاہتے ہیں۔ فلسطینی قائد نے مزید کہا کہ گزشتہ سالوں میں بعض لوگوں کی جانب سے معاملات درست طریقے سے نہ نمٹائے گئے جس سے اسرائیلی غرور اور امریکی تعاون کے سائے میں بحران مزید گہرا ہوتا چلا گیا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ فلسطینی حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام معاملات پر تفصیلی اور جامع حکمت عملی اختیار کی جائے۔ انہوں نے کہا حماس اور دیگر فلسطینی جماعتوں کی متعدد شخصیات نے اس مقصد کے حصول کو اپنا نصب العین بنا لیا ہے اور عنقریب اس ضمن میں قوم کو کامیابی کی نوید سنائی جائے گی۔ حماس کے رہنما نے کہا کہ مصر اور تیونس میں آنے والے انقلاب مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی کرن بن کر سامنے آیا ہے، ان عظیم قوموں کے انقلاب نے فلسطینی قوم کی جدوجہد میں بھی نئی روح پھونک دی ہے۔ مشعل نے دونوں ملکوں کی عوام کو مبارکباد پیش کی اور تحریک میں شہید ہونے والوں کے لیے دعائے مغفرت کی، انہوں نے زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔ مشعل نے کہا کہ مصر میں آنے والا انقلاب اپنی نوعیت کا منفرد انقلاب ہے اور شاید تاریخ انسانی کا سب سے بڑا پر امن انقلاب ہے۔ انہوں نے مصر کے اپنے اصل کی جانب لوٹنے کو مبارک قرار دیا اور امید ظاہر کی وہاں عوامی جدوجہد کے تمام اہداف جلد حاصل ہو جائیں گے۔ خالد مشعل دمشق میں فلسطینیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہر قوم کا کوئی ورثہ ہوتا ہے، جن قوموں کی کوئی میراث نہیں ہوتی ان کا حال ہے نہ کوئی مستقبل۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا لڑائی اپنی سرزمین، مقدس مقامات کی حفاظت، انسانیت، آزادی، ثقافت، تاریخ، شناخت اور اپنی میراث کی لڑائی ہے، اسرائیل زمین کی طرح ہم سے ہماری میراث بھی چھین لینا چاہتا ہے جس میں اسے کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔