مصر میں عوامی انقلاب کے نتیجے میں صدر حسنی مبارک کے تختہ الٹے جانے کے بعد سب سے زیادہ تبصرے اور تشویش کا اظہار اسرائیلی میڈیا پر کیا جا رہا ہے.اسرائیل کے ایک کثیرالاشاعت عبرانی روزنامہ”یدیعوت احرونوت” میں شائع ایک مضمون میں کہا گیا ہے کہ حسنی مبارک نہ صرف مشرق وسطیٰ میں امن معاہدوں کے بڑے ضامن تھے بلکہ وہ اسلامی پسندوں کے عزائم کی راہ میں بھی ایک بڑی رکاوٹ تھے، ان کے جانے کے بعد مصری مذہبی گروپوں کے لیے راستےصاف ہو گئے ہیں، مستقبل قریب میں ایسے لگ رہا ہے کہ مصر بھی اسرائیل کے لیے دوسرا ایران ثابت ہو گا. اسرائیل کے سیاسی امور ماہر “آٹن ہابر” اخبار میں مطبوعہ مضمون میں لکھتے ہیں کہ “سابق مصری صدر حسنی مبارک عملا ایک مذہب باغی انسان تھے، یہی وجہ ہے کہ وہ مذہب پسندوں کو مسلسل کھٹکتے رہے ہیں، اسرائیل کے بارے میں انہیں ایک وفاق کا نام دیا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نے نہ صرف تل ابیب کے ساتھ امن معاہدے کیے بلکہ ان کی مکمل پاسداری بھی کی.سابق صدر اسرائیلی عہدیداروں کو شاہی محل میں ضیافت پر بلاتے، دوطرفہ مراسم کومزید مضبوط کرنے کے لیے تحائف کا تبادلہ کرتے تھے. یہ ان کی بہت بڑی نوازش تھی کہ انہوں نے مشکل وقت میں اسرائیل کو نہایت کم نرخوں پر قدرتی گیس فراہم کی تھی. لیکن اب وہ جا چکے ہیں. اسرائیل کو ان کا شکرگزار ہونا چاہیے کہ حسنی مبارک تیس سال تک اسرائیل کی سلامتی کے ضامن رہے بلکہ اس کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتےرہے”. صہیونی تجزیہ نگار مزید لکھتے ہیں کہ مصر میں اب مذہبی گروپوں کی عمل داری کا دور شروع ہونے والا ہے. موجودہ حالات میں مصر میں اخوان المسلمون سب سے زیادہ مقبولیت حاصل کر سکتی ہے. آٹن نے کہا کہ جس طرح مصر میں حسنی مبارک اسلام پسندوں کی راہ میں حائل تھے اب اسی طرح اخوان المسلمون خطے میں قیام امن کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں. فاضل یہودی مضمون نگار کا کہنا ہے کہ حسنی مبارک قدامت پسندوں کے سخت خلاف تھے. اگرچہ ان کے دور میں ملک میں جمہوریت پھل پھول نہیں سکی لیکن اس کے باوجود جو قدم انہوں نے اٹھایا وہ بہت مناسب اور برمحل تھا.جو وہ سوچتے تھے ان کے مقابلے میں ایک سو افراد بھی ایسا نہیں سوچ سکتے تھے، بلکہ دانشمندی میں امریکی صدر باراک اوباما سے بھی کئی درجے بہتر تھے.