مصر میں عوامی انقلاب اب ایسے مرحلے میں داخل ہوگیا ہے جہاں سے واپسی ناممکن ہے یہ وہ حقیقت ہے جس کا برملا اظہار مصری حکومت کے مخالف سیاسی رہنما بھی کرنے لگے ہيں اخوان المسلمین کے قائدین اور محمد البرادعی جیسے لیڈروں نے کہا ہے کہ مصر کاعوامی انقلاب اب کامیابی کے بہت قریب ہے اور ہم جس منزل پر پہنچ گئے ہيں وہاں سے واپسی نہيں ہوسکتی ۔مصرسے جو خبریں موصول رہی ہيں ان کے مطابق دارالحکومت قاہرہ سمیت ملک کے ديگرشہروں میں عوامی مظاہروں میں شدت آتی جارہی ہے ۔ مصری عوام نے صدرحسنی مبارک کی طرف سے کابینہ کی یکسر تبدیلی اور ساتھ ہی عوام کو ڈرانے و دھمکانے جیسے حربوں کومظاہرین نے یکسر مسترد کردیا ہے اورہ سڑکوں پرتعینات فوجی ٹینکوں کی پرواہ کئے بغیر صدرحسنی مبارک کے استعفے تک اپنے مظاہرے جاری رکھنے میں انتہائی پرعزم نظر آتے ہيں ۔ اس درمیان یہ بھی خبریں ہیں کہ صدرحسنی مبارک کی اہلیہ اور ان کے دو بیٹے مصر سے فرار کرگئے ہيں جبکہ ایسی بھی خبریں ہيں کہ گذشتہ چند گھٹنوں میں مصر سے ایسی پینتالیس خصوصی پروازيں بیرون ملک گئی ہیں جن کے بارے میں کسی کو نہيں معلوم کہ ان جہازوں میں کون گیا ہے ۔مصر کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال نے امریکہ اور اسرائیل کی نیندیں حرام کردی ہيں امریکی صدر باراک اوبامہ جہاں مسلسل حسنی مبارک سے ٹیلی فونی رابطے میں ہيں وہیں انہوں نے غاصب اسرائیلی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو، سعودی عرب کے فرمانرواء شاہ عبداللہ برطانیہ کے وزیر اعظم ڈيوڈ کیمرون اور کئی ديگر لیڈروں سے ٹیلی فون پر طویل گفتگو کی ہے ۔ مگر مصر کے عوامی انقلاب سے جس پر سب سے زیادہ خوف و لرزہ طاری ہے وہ غاصب اسرائیل ہے خبروں میں بتایا گیا ہے کہ مصری عوام کے احتجاجی مظاہروں اور انقلاب پر صہیونی حکام گہری نظر رکھے ہوئے ہيں ۔ قاہرہ میں صہیونی حکومت کا سفارتخانہ بند ہوچکا ہے اور اس کے عملے کے افراد قاہرہ چھوڑ کرتل ابیب فرارکر گئے ہيں ۔ صہیونی حکومت کے ذرائع ابلاغ علاقے اور خاص طور پر مصرکے حالات پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہيں کہ یہ حسنی مبارک کے لئے ان کی زندگی کی سب سے بڑی آزمائش ہے صہیونی حکومت کے وزیر اعظم بنیامین نتنیاہو نے اپنی کابینہ کے وزراء کو خبردار کیا ہے کہ وہ مصرکے حالات کے بارے میں کھلے عام کوئي تبصرہ یا اپنی نظر نہ دیں۔ ایسا لگتا ہے کہ نتنیاہو نے یہ انتباہ اپنے ایک وزیر کے اس بیان کے بعد دیا ہے کہ جس میں اس نے کہا تھا کہ مصر میں حسنی مبارک کی سرنگونی کو لے کر اسرائیل ميں گہری تشویش پائی جاتی ہے ۔
صہیونی حکومت کے وزیر اعظم اپنے وزیروں کو مصر کے حالات کے بارے میں تبصرہ کرنے سے منع کریں یا نہ کریں یہ بات دنیا جانتی ہے کہ مصرمیں حکومت کی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ علاقے میں اسرائیل کا ایک بڑا پشتپناہ ختم ہوجائے گا ایسے میں غاصب اسرائیل کی بنیادیں جو پہلے ہی متزلزل ہوچکی تھیں مزید کمزور ہوجائيں گی اور اس کی تباہی کا راستہ کافی حدتک ہموار ہوجائے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ، اسرائیل اور اس کے یورپی اور علاقائی اتحادیوں کی پہلی کوشش تو یہی ہے کہ جیسے بھی ہو حسنی مبارک کی سیاسی زندگی کو بچالیں اور اگرمبارک کو جانا ہی ہے تو ان کے بعد مصر میں کوئي ایسا نظام یا ایسے افراد کو لے کر آئيں جو اسرائیلی اور امریکی مفادات کا تحفظ کرتے رہيں ۔ عمر سلیمان کو ملک کا نائب صدر بنادیا جانا اور پھر محمد البرادعی کو ایک عوامی لیڈر کے طور پر جن کا کوئي سیاسی پس منظر نہيں ہے پیش کیا جانا انہی سازشوں کا حصہ ہيں
اس میں شک نہيں کہ مصری عوام کی یہ تحریک صرف عوامی تحریک نہيں ہے اس میں اسلامی رنگ اور اپنا تشخص اور شناخت حاصل کرنے کا جذبہ پورے طورپر نمایاں ہے ٹینکوں کی موجودگی میں سڑکوں پر اقامہ نماز اور اللہ اکبر کے نعرے یہ سب اس بات کی علامتيں ہيں کہ عوام نے محض مادی بنیادوں پریہ تحریک نہيں چلائی ہے اورجب یہ تحریک مادی بنیادوں پر نہيں ہے تو وہ ایسے کسی بھی مادی عناصر کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور نہیں دیں گے جو ان کی امنگوں اور آرزؤں کے خلاف اقدامات انجام دیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تیونس کے بعد جس طرح سے مصر میں عوامی اور حریت پسندانہ انقلاب رونما ہورہا ہے اس کے پیش نظر مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ انقلاب اب مصرتک ہی محدود نہيں رہے گا اس انقلاب کا پیغام ابھی سے پورے علاقے پر محیط ہوچکا ہے اور امریکہ و اسرائیل جس چیز سے ڈر رہے ہيں وہ یہی پیغام ہے۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جو یقینی طور پر تاریخ کا رخ موڑ دے گا اسی لئے امریکہ اور اسرائیل اور ان کی حکومتوں کی ناکام سازشيں جاری ہيں مگر اب تو بہت دیر ہوچکی ہے اور نہ صرف مصرکی سطح پر بلکہ پورے مشرق وسطی کی سطح پر دیر اور بہت دیر ہوچکی ہے ۔ اب امریکی نہیں بلکہ ایک اسلامی مشرق وسطی وجود میں آیا ہی چاہتا ہے جو سامراجی عزائم کا قبرستان ثابت ہوگا ۔