اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ نے فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کو تجویز دی ہے کہ وہ عوام کا غم وغصہ کم کرنے کے لیے الجزیرہ ٹی وی پر نشر ہونے والے ان انکشافات کو برملا تسلیم کر لیں جن میں کہا گیا ہے کہ اتھارٹی نے اسرائیل سے خفیہ مذاکرات میں صہیونی مذاکرات کاروں کے سامنے کئی بنیادی حقوق سے پسپائی کا عندیہ دیا تھا. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اخبار “یروشلم پوسٹ” میں ایک صہیونی سیاسی امور کے ماہر ڈیوڈ ھورو فیٹز کا مضمون شائع ہوا ہے.مضمون میں فاضل مضمون نگار کا کہنا ہے کہ الجزیرہ نے فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کےساتھ خفیہ مذاکرات کے دوران قومی مطالبات سے پسپائی کے جس اسکینڈل کو طشت ازبام کیا ہے وہ سوفیصد حقیقت ہے کیونکہ فلسطینی اتھارٹی ماضی میں اسرائیلی حکومتوں کے ساتھ خفیہ اور اعلانیہ مذاکرات میں کئی سابقہ مطالبات سے پیچھے ہٹنے کا اشارہ دیتی رہی ہے. ان کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں فلسطینی صدرمحمود عباس اور فلسطینیوں کے پاس الگ الگ دو راستے ہیں. صدرعباس کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ وہ الجزیرہ کے انکشافات کو سچ مانتے ہوئے فلسطینی قوم کے سامنے برملا اعتراف کر لیں کہ ان سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات میں بیت المقدس، پناہ گزینوں اور فلسطینی ریاست کی حدود کے تعین بارے بات چیت میں “غلطی” ہوئی ہے.مذاکرات کار اسرائیل کو بنیادی حقوق سے پیچھے ہٹنے کی پیشکش کر چکی ہے. دوسرا راستہ یہ ہے وہ الجزیرہ کے انکشافات کو جھوٹ ثابت کرنے کی تگ و دو میں لگے رہیں. دوسری صورت میں صدر عباس کو سخت فلسطینی عوامی مزاحمت اور تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، کیونکہ صدر عباس فلسطینیوں کے نزدیک اب ناقبل اعتبار ہو چکے ہیں. صہیونی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ دونوں صورتوں میں فلسطینی عوام کے پاس بھی دو چارہ ہائے کار ہیں. وہ چاہیں تو فلسطینی اتھارٹی کا سخت احتساب کریں اور چاہیں تو ان کے مذاکرات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی حمایت کریں. ڈیوڈ ہوروکا کہنا ہے کہ الجزیرہ کے انکشافات کے بعد عرب ممالک اور فلسطینی عوام فلسطینی اتھارٹی کے بارے میں اپنا موقف تبدیل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں. نیز ان انکشافات نے فلسطینی رائے عامہ کو فلسطینی صدر کے خلاف کرنے مں اہم کردار ادا کیا ہے.