موصولہ اطلاعات کے مطابق فلسطینی غیر آئینی صدر محمود عباس نے مصری صدر حسنی مبارک سے ٹیلی فون پر رابطہ کر کے عوامی احتجاجی مظاہروں کو کچلنے کے ان کے موقف کی تائید کی ہے۔ انہوں نے مصری صدر کی اپنی عوام سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی پالیسی کو خراج تحسین پیش کیا۔ خیال رہے کہ مصر کے مختلف شہروں میں مصری عوام بڑے احتجاجی مظاہرے کر کے مصری صدر حسنی مبارک سے واپسی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ مبارک نے اگرچہ اپنی حکومت کو مستعفی تو کر دیا تاہم انہوں نے خود بدستور عہدہ صدارت سنبھالے رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ محمود عباس کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق فلسطینی صدر نے شرم الشیخ میں موجود مصر کے صدر حسنی مبارک کو ٹیلی فون کیا اور مصر کے ساتھ بھرپور اظہار یک جہتی کرتے ہوئے وہاں جلد قیام امن کی خواہش بھی ظاہر کی۔ خیال رہے کہ مصر کے مشتعل عوام کی جانب سے جمعہ کے روز احتجاجی مظاہروں کے بعد مصری حکومت کا تختہ الٹے جانے کے خوف سے فلسطینی اتھارٹی کے تمام عہدے دار شدید خوف میں مبتلا رہے۔ فلسطین میں بھی ایسے ہی احتجاجی مظاہروں کے خوف سے حکومتی عہدے دار ساری رات مصر اور واشنگٹن سے رابطے کرتے رہے۔ فلسطینی اعلی قیادت مصر میں نظام کی تبدیلی کو اپنے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دے رہی تھی تاہم علی الصبح مصری حکومت کے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد فلسطینی صدر اور ان کے رفقاء قدرے مطمئن ہو گئے ہیں۔ اس موقع پر فلسطینی اتھارٹی کے الیکٹرانک ذرائع ابلاغ نے بھی مصر میں نظام کے برقرار رکھنے کی حمایت کی اور مصری عوام کے احتجاج کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا مہم جاری رکھی۔ فلسطینی اتھارٹی کے میڈیا نے عوامی تحریک کو مصر مخالف ہجوم قرار دیا اور ان مظاہروں کے دوران جاں بحق ہونے والے 100 سے زائد افراد کے متعلق مصری سکیورٹی فورسز کے موقف کی بھی بھرپور تائید کی۔ خیال رہے کہ اس سے قبل عوامی مظاہروں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے ملک سے فرار ہونے والے تیونس کے صدر نے بھی ٹیلی فون پر اپنی آخری بات فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد صدر محمود عباس سے ہی کی تھی، جس میں عباس نے انہیں بھی عوامی مظاہروں سے طاقت کے زور پر نمٹنے پر ابھارا تھا۔