عرب ٹی وی ’’الجزیرہ‘‘ کو حاصل ہونے والی فلسطینی خفیہ دستاویز کے مطابق مغربی کنارے کی’’فتح‘‘ حکومت نے مئی 2009ء میں امریکا کو پاکستان، افغانستان، عراق اور صومالیہ جیسے ممالک میں جاسوسی کرنے کی پیش کش کی اور ایران کی مخالفت میں بھی واشنگٹن کا بھرپور ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔
05 مئی کو واشنگٹن کے نمائندوں کے ساتھ ہونے والے مذاکرات میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ صائب عریقات کا کہنا تھا ’’ہم نے امریکا کے پاس جا کر اپنی خواہش کے مطابق بات کرنے کی عرب ممالک کی روایت توڑ دی ہے‘‘
’’اس کے برعکس ہم (امریکی صدر) اوباما کو افغانستان، عراق، پاکستان، صومالیہ اور دیگر ممالک میں مدد کی پیش کش کر رہے ہیں‘‘
عریقات نے مزید کہا ’’شام، سعودی عرب، مصر اور اردن سب ممالک نے اوباما کو کہا ہے کہ ان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ امریکا کی مدد کریں جبکہ میں کردستان تک چلا گیا‘‘
تاہم دستاویز میں کردستان جانے کے عریقات کے مقصد کو واضح نہیں کیا گیا، واضح رہے کہ کردستان سے مراد عراق لیا گیا ہے۔
عریقات نے امریکا کی مدد میں ’’فتح‘‘ کے کردار کو مزید اس طرح واضح کیا ’’ایک ایسے وقت جب دیگر ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ وہ اسلامی تحریک مزاحمت ۔ حماس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کریں ہم اسی چیز کو ان کے خلاف استعمال کریں گے‘‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا ’’ ہم کوئی خیراتی تنظیم نہیں چلا رہے، ایران اس کھیل میں حماس کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے‘‘خفیہ دستاویز میں فتح کی جانب سے ایران کی مخالفت کی پیش کش سے بھی پردہ اٹھایا گیا ہے۔
21 اکتوبر 2009ء کی ملاقات میں عریقات نے مشرق وسطی کے لیے مبعوث امریکی ایلچی جارج مچل کو کہا ’’ مشرق وسطی میں کچھ کرنے کے لیے یہ ہی درست وقت ہے، (ایرانی صدر محمود احمدی) نژاد غزہ اور لبنان میں ہیں، پاکستان ناکامی کی جانب جا رہا ہے یہ ہی حال سوڈان اور صومالیہ کا ہے‘‘
’’ عرب ممالک کچھ نہیں کریں گے، کیا آپ کو معلوم ہے کہ صدر محمود عباس نے ایک بزنس مین کو ’’موسوی‘‘ ریڈیو اسٹیشن کے لیے مالیات کی فراہمی کا کہا ہے‘‘ عریقات نے بات مکمل کی۔ واضح رہے کہ مذکور ریڈیو اسٹیشن ایران کی حزب مخالف کے رہنما میر حسین موسوی کے نام سے موسوم ہے جس کی معاونت کر کے فلسطینی اتھارٹی ایرانی حکومت کی مخالفت میں شرکت کرنا چاہتی ہے۔
اسی روز انہوں نے سابقہ امریکی سکیورٹی ایڈوائزر جنرل جیمز جونز سے ایک ملاقات میں کہا ’’دس روز قبل ہم نے ایک فلسطینی بزنس مین کو موسوی ریڈیو اسٹیشن کے قیام کے لیے 50 ملین ڈالرز کی فراہمی پر راضی کیا ہے‘‘