مغربی کنارے میں فتح کی زیر انتظام فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے حماس کے حامیوں کی پکڑ دھکڑ مہم بدستور جاری ہے۔ عباس ملیشیا نے بیت لحم، نابلس اور مشرقی القدس سے حماس کے معروف رہنما شیخ سلیم شماسنہ سمیت حماس کے 08 کارکنوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق بیت لحم میں ڈاکٹر عیسی ثوابتہ کو بیت فجار کے علاقے سے اغوا کیا انہیں اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ حراست میں رکھا جا چکا ہے۔ وہ کئی مرتبہ ’’فتح‘‘ کے غنڈہ گردی کرنے والے گینگز کے حملوں کا بھی نشانہ بن چکے ہیں۔ اسی علاقے سے عباس ملیشیا نے بیت لحم یونیورسٹی کے طالب علم محمد فواد کو بھی حراست میں لیا ہے، یہ بھی متعدد مرتبہ قید کیے جا چکے ہیں۔ بلدہ مراح رباح سے سابقہ اسیر محمود عمرو شیخ اور طہ قاسم کے اٹھا لیے جانے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔ الخلیل میں دو روز قبل ہی رہا کیے جانے والے عابد زغیر دوبارہ ملیشیا کی جارحیت کا نشانہ بن گئے۔ زندگی کے دس قیمتی سال اسرائیلی عقوبت خانوں کی نذر کرنے والے زین الدین شبانہ اب کی بار عباس حکومت کی ملیشیا کے ظلم کا نشانہ بن گئے ہیں۔ مشرقی القدس میں بھی فتح حکومت کی پری وینٹو فورسز نے پکڑ دھکڑ مہم جاری رکھی اور اسرائیلی فوجی اہلکاروں کی بڑی تعداد کے تعاون سے پہلے قطنہ کے علاقے پر حملہ کر کے کئی گھروں کا محاصرہ کرلیا، اور پھر حماس کے معروف رہنما شیخ سلیم شماسنہ کے گھر کا گھیراؤ کر کے انہیں اغوا کر کے تفتیشی ہیڈ کوارٹر بھیج دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ شیخ سلیم علاقے کی ’’مسجد ابو ذر غفاری‘‘ کے امام اور قطنہ کی علاقائی کمیٹی کے رکن ہیں۔ انہیں اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ حراست میں رکھا جا چکا ہے، جہاں وہ اپنی کم عمری میں ہی صہیونی درندہ صفت تحقیق کاروں کے بہیمانہ تشدد سے گھٹیا کے مرض کا شکار ہو چکے ہیں۔ تحریک ’’فتح‘‘ کی فوجی عدالت ان کے بیٹے کو بھی چھ ماہ قید کی سزا سنا چکی ہے۔ ضلع نابلس میں عباس ملیشیا نے ناصر عرایشہ نامی شہری کو چوتھی مرتبہ اغوا کر لیا اور رام اللہ میں بھی اس کے اہلکاروں کی بڑی تعداد نے ایک چھاپہ مار کارروائی میں دو بھائیوں براء یوسف کفایہ اور حمزہ شیخ کو اٹھا لیا ہے۔ واضح رہے کہ 2006ء کے عام فلسطینی انتخابات میں 45 کے مقابلے میں 74 کی واضح اکثریت کے باوجود حماس کو اقتدار سے محروم کیے جانے کے بعد مغربی کنارے میں فتح اور غزہ میں حماس کی الگ الگ حکومتیں قائم ہیں، تب سے فلسطینی جماعتوں کا اختلاف تاحال ختم نہیں ہو سکا۔ فلسطینی مفاہمت کی ضرورت کو تسلیم کرنے کے باوجود فتح نے اپنے زیر انتظام مغربی کنارے میں حماس کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔ 1993ء کے اوسلو معاہدے میں فلسطینی قوم کے مسلمہ حقوق سے دستبرداری کے بعد اسرائیلی خوشنودی کی خاطر فتح حکام حماس کے حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن ختم کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ امریکی کمانڈرز سے تربیت حاصل کرنے والے ’’فتح‘‘ حکومت کی ملیشیا کے اہلکاروں نے اسرائیل کے ساتھ سکیورٹی تعاون کی آڑ میں صہیونی فوج پر حملے روکنے کے لیے 3000 سے زائد حماس کے کارکنوں اور رہنماؤں کو حراست میں لے رکھا ہے جس سے اس کی صہیونیت نوازی کھل کر عیاں ہو گئی ہے۔ عالمی دباؤ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے سے اسرائیلی انکار کے باوجود عباس ملیشیا کا حماس حامیوں کے خلاف کریک ڈاؤن جاری رہنے پر ماہرین اسے اسرائیلی فوج کی ’’بی ٹیم‘‘ قرار دے رہے ہیں جس کا مقصد طاقت کے زور پر فلسطینی قوم کو اپنے مسلمہ قومی حقوق سے دستبرداری پر مجبور کرنا ہے۔