اسرائیل کی جانب سے غزہ کی منطار کراسنگ بند کرنے پر فلسطینی عہدے دار نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس راہداری کی بندش سے غزہ درآمدات بالخصوص آٹا اور کھانا پکانے کی گیس کی کمی کی وجہ سے غزہ میں ایک نیا بحران کھڑا ہو جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ غلہ اور خوراک کے لیے مخصوص اس کراسنگ کو بند کر کے صرف ’’کرم ابوسام‘‘ کراسنگ پر انحصار کسی طور درست نہیں۔ فلسطینی چیمبر آف کامرس میں پبلک ریلیشن ڈائریکٹر اور ماہر اقتصادی امور ڈاکٹر ماھر الطباع نے بتایا کہ اسرائیلی فیصلے سے غزہ کی پٹی میں آٹے سمیت مختلف کھانے پینے کی اشیاء کی چار سال سے جاری درآمد رک جائے گی جس سے ایک نیا انسانی بحران سامنے آئے گا۔ الطباع نے نیوز ایجنسی ’’قدس پریس‘‘ کو بتایا کہ غزہ میں پچھلے ایک ماہ سے آٹے کا بحران جاری ہے اور اب منطار کراسنگ کے بند ہونے سے یہ بحران اپنے عروج کو پہنچ جائے گا۔ ساتھ ساتھ کھانے پینے کی دیگر کئی اشیا بھی غزہ سے ناپید ہونے کا خدشہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے چار سال سے اسی کراسنگ کے ذریعے غزہ میں غلہ اور خوراک درآمد کی جا رہی ہے۔ اس عمل کو کراسنگ ’’کرم ابو سالم‘‘ منتقل کرنے سے وہاں دباؤ بڑھ جائے گا کیونکہ اس کی گنجائش انتہائی محدود ہے جس کا لامحالہ نتیجہ یہ ہو گا کہ غزہ میں لائی جانے والی گندم، کھانا پکانے کی گیس اور دیگر ضروری اشیاء جو پہلے ہی کم ہیں مزید کمی کا شکار ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے چار سال سے اسی کراسنگ کے ذریعے غزہ میں غلہ اور خوراک درآمد کی جا رہی ہے۔ اس عمل کو کراسنگ ’’کرم ابو سالم‘‘ منتقل کرنے سے وہاں دباؤ بڑھ جائے گا کیونکہ اس کی گنجائش انتہائی محدود ہے جس کا لامحالہ نتیجہ یہ ہو گا کہ غزہ میں لائی جانے والی گندم، کھانا پکانے کی گیس اور دیگر ضروری اشیاء جو پہلے ہی کم ہیں مزید کمی کا شکار ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ چار کراسنگز کے ذریعے غزہ لائے جانے والے سامان کو صرف ایک کراسنگ کے ذریعے غزہ داخل کرنا عمل بھی ممکن نہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ تسلیم بھی کرلیں کہ ’’کرم ابوسالم‘‘ اضافی دباؤ برداشت کر سکتی ہے تو پھر بھی ’’منطار‘‘ کراسنگ کی موجودگی میں اس کا استعمال درست نہیں ہو گا کیونکہ وقت ہی اتنے سامان کے گزارنے کی اجازت نہیں دیتا۔ منطار میں سامان کے داخلے کے لیے 20 ٹرمینل بنائے گئے تھے جہاں سے یومیہ 500 ٹرک سامان غزہ لا رہے تھے۔ اب اگر کرم ابو سالم کو دیکھیں تو یہ رات کو بند ہوتی ہے اور صرف دن کے اوقات میں کو اتنی بڑی مقدار کا یہاں سے گزرنا ممکن ہی نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کراسنگ بند کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ اہل غزہ کو آٹے اور بنیادی ضرورت کے سامان سے بالکیہ محروم کر کے موت کے منہ میں دھکیل دیا جائے۔ واضح رہے اسرائیل نے جون 2006ء سے غزہ کی ناکہ بندی کر رکھی ہے۔ کراسنگ بند ہونے سے غزہ کی درآمدات شدید دھچکا لگے گا۔ واضح رہے کہ غزہ کی پٹی سے ایک راہداری مصر جبکہ کے چھ راہداریاں اسرائیلی زیر نگین فلسطین میں کھلتی ہیں۔ پانچ سالہ اسرائیلی محاصرے میں گھرے پندرہ لاکھ اہل غزہ کے لیے ضروری سامان کی ترسیل کے لیے پہلے ہی اسرائیلی حدود میں آنے والی صرف دو راہداریاں استعمال میں تھیں، حالیہ فیصلے کے بعد صرف ایک راہداری اہل غزہ کی مشکلات کے دکھوں کے مداوے کے طور پر استعمال کی جا سکے گی۔