ترکی کے وزیراعظم رجب طیب ایردوان نے کہا ہے کہ فلسطینی مزاحمتی تنظیم”اسلامی تحریک مزاحمت. حماس” اپنے دیرینہ حقوق کے لیے لڑ رہی ہے اور ترکی حماس کی پشتیبانی اور اس کی حمایت جاری رکھے گا. ان کا کہنا تھا کہ حماس اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑ رہی ہے جو کسی بھی فلسطینی کا ایک بنیادی اور مسلمہ حق ہے. اس کے علاوہ حماس ایک سیاسی جماعت ہے جسے فلسطینی عوام نے بھاری مینڈیٹ دیا ہے. مشرق وسطیٰ میں حماس کو نظرانداز کر کے کوئی بھی امن سمجھوتہ کامیاب نہیں ہو سکتا.
ترک وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہارعرب نشریاتی ادارے”الجزیرہ” کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کیا ہے.ایک سوال کے جواب میں طیب ایردوان نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ “میں یہ واضح کر دوں کہ حماس حق پر ہے اور تمام باتوں سے قبل ہم ہمیشہ حماس کے ساتھ کھڑے رہیں گے. ترکی نے ماضی میں بھی حماس کا ساتھ دیا، آج بھی دے رہا اور آئندہ بھی حماس کو نہ صرف تنہا نہیں چھوڑا جائے گا بلکہ اس کو مضبوط کیا جائے گا”.
انہوں نے کہا کہ حماس ایک مزاحمتی جماعت ہے جو سیاست کےمیدان میں موجود ہے اور وطن کی آزادی کے لیے مزاحمت بھی کر رہی ہے. میں حماس کو کسی صورت میں بھی “دہشت گرد” تنظیم خیال نہیں کرتا کیونکہ میرے نزدیک وہ نہ صرف صحیح راہ پر چل رہی ہے بلکہ اسے اسی راہ پرچلنا چاہیے.
ایک سوال کے جواب میں ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ حماس کو سیاست میں شراکت کا موقع نہ دینا اس کے انتخاب کو مسترد کرنا جمہوریت دشمنی پر مبنی رویہ ہے. دنیا جب حماس جیسی قومی فلسطینی جماعت کوسیاست میں آنے سے روکےگی تو اس کا لامحالہ نیتجہ ہتھیار اٹھانے کی صورت میں نکلے گا. انہوں نے استفسار کیا کہ آپ کیسے ایک ایسی جماعت کوانتخابی سیاست سے روک سکتے ہیں جسے وہاں کے عوام کی بڑے پیمانے پر پذیرائی حاصل ہو. انہوں نے امریکا، یورپی یونین، اقوام متحدہ اور روس پر مشتمل گروپ چار کے سربراہ ٹونی بلئیر کےاس بیان پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جس میں بلئیر کا کہنا تھا کہ جس اجلاس میں حماس موجود ہو گی وہ اس میں شریک نہیں ہوں گے. ایردوان نے مسٹربلئیرکو مخاطب ک رکے پوچھا کہ آیا وہ یہ بتا سکتے ہیں کہ خطے میں قیام امن کی راہ میں بڑی رکاوٹ حماس ہے یا اسرائیل.اگر وہ اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت کے لیے بیٹھ سکتے ہیں تو دوسرے فریق کےساتھ کیوں نہیں.
انہوں نے کہا کہ فلسطینی سیاست میں حماس اور فتح دو اساسی عنصر ہیں. دنیا ان دونوں میں سے کسی ایک کو نظرانداز کر کے کوئی امن سمجھوتہ نہیں کر سکتی.
اسرائیلی لیڈر شپ پرتنقید
ترک وزیراعظم نے الجزیرہ کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے صہیونی قیادت اور انتہا پسند وزیراعظم بنجمن نیتین یاھو کو بھی آڑے ہاتھوں لیا. ایردوان نے اپنا وہ مطالبہ ایک بارپھر دہرایا کہ اسرائیل گذشتہ برس ترکی کے امدادی جہاز مرمرہ پر حملوں کی پاداش میں ترکی سے معافی مانگے اور متاثرین کو معاوضہ ادا کرے. انہوں نے کہا کہ ترکی اپنے نوشہریوں کا خون اسرائیل کو مفت میں معاف نہیں کر سکتا. اسرائیل کو نہ صرف انقرہ سے اپنے کیے کی معافی مانگنا ہوگی بلکہ اسے شہداء کے لواحقین اور زخمیوں کو معقول معاوضہ ادا کرنا ہو گا.
اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی بحالی سے متعلق سوال کے جواب میں ترک وزیراعظم نے کہا کہ اسرائیل سے
ہمارے تین مطالبات واضح ہیں.مرمرہ جہاز کے شہداء کا معاوضہ ادا کیا جائے. جہاز پر حملے پرترکی سے باضابطہ معافی مانگی جائے اور غزہ کی پٹی کا محاصرہ ختم کیا جائے. جب تک اسرائیل یہ تین مطالبات پورے نہیں کرے گا تل ابیب کے ساتھ ترکی کے تعلقات قائم نہیں ہوں گے.
ایردوان نے صہیونی وزیرخارجہ آوی گیڈورلائبرمین کے متنازعہ بیانات پر انہیں کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہیں “حقیرترین” اور مکروہ انسان قرار دیا. ان کا کہنا تھا کہ جس طرح لائبرمین ایک مکروہ انسان ہیں اسی طرح ان کے بیانات بھی حقیر اور قابل نفرت ہیں.