ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب ایردوان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کشیدہ تعلقات کی بحالی کے لیے ترکی اپنی شرائط سے دستبردار نہیں ہوا۔ انہوں نے اسرائیلی پالیسی کو مشرق وسطی کے سکیورٹی کے لیے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے فی الفورغزہ محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر انہوں نے فلسطینی تنظیموں سے بھی اختلافات ختم کر کے متحد ہونے کی اپیل کی۔ اپنے دورہ دوحہ کے موقع پر قطر کے اخبار الشرق کو دیے گئے انٹرویو میں ترک وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اسرائیلی حکومت کی سرگرمیاں اور پالیسی خطے میں امن و سلامتی کے خلاف ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ترکی اور اسرائیلی تعلقات میں بڑی خلیج واقع ہو گئی ہے بالخصوص انسانی امداد کے لیے جانے والے امدادی قافلے ’’فریڈم فلوٹیلا‘‘ پر صہیونی فوج کے حملے اور 09 ترک رضا کاروں کے بے دریغ قتل کے بعد ترک اسرائیل تعلقات انتہائی کشیدگی کا شکار ہو گئے ہیں۔ 31 مئی 2010ء کو کیا گیا یہ حملہ واضح طور پر عالمی قوانین کی خلاف ورزی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی جانب سے قائم کی گئی ’’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘‘ نے بھی فریڈم فلوٹیلا پر ہونے والی خونریزی کی ساری ذمہ داری اسرائیل پر عائد کی ہے۔ انہوں نے اس توقع کا اظہار بھی کیا کہ یہ کمیٹی اس بات پر بھی زور دے گی کہ کوئی بھی ملک قانون سے بالاتر نہیں ہوتا، انہوں نے کہا کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ترکی سے باقاعدہ معذرت اور سانحے کے متاثرین کو معاوضے ادا کرنے کے اپنے مطالبے سے کبھی دستبردار نہیں ہونگے۔ غزہ محاصرے پر ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ناکہ بندی کر کے یہاں بسنے والے 15 لاکھ فلسطینیوں کو اجتماعی قید کی سزا میں رکھا ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کی زیر انتظام کام کرنے والی تنظیمیں بارہا غزہ کی معاشی حالت میں بہتری لانے کا مطالبہ کر چکی ہیں تاہم اسرائیل مسلسل اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1860 کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اس قرار داد میں اہل غزہ کو خوراک، طبی اور غذائی سامان اور ایندھن کی فراہمی کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ایردوان نے غزہ اور القدس کی ابتر صورتحال اور مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر اسرائیلی ضد اور ہٹ دھرمی پر شدید تنقید کی اور اسے مشرق وسطی کے امن کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا۔