مغربی کنارے کی عباس حکومت کے حساس اداروں کے عقوبت خانوں میں 40 روز سے بھوک ہڑتال کیے ہوئے پانچ فلسطینی اسیران کے اہل خانہ نے خبردار کیا ہے کہ ان کے بیٹے شہادت پانے کو ہیں، انہیں کچھ ہوا تو ان کی جان کے ذمہ دار فلسطینی غیر آئینی صدر محمود عباس ہونگے۔ مختلف جیلوں میں موجود وائل البیطار، مجد عبید، مھند نیروخ، احمد العویوی اور وسام القواسمی کو گزشتہ جمعرات سے مشروبات پینے سے بھی روک دیا گیا ہے جس سے معاملہ انتہائی کشیدہ ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ سپریم کورٹ ایک سال قبل ان کی رہائی کا فیصلہ کر چکی ہے جس پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث قیدیوں نے ہڑتال کر رکھی ہے۔ عباس انتظامیہ کی جانب سے ہڑتالی قیدیوں کو اپنے شہروں کی جیلوں میں منتقل کرتے وقت ان کی رہائی تک مشروبات پینے کی اجازت دی گئی تھی۔ اتوار کے روز اسیران کے اہل خانہ نے ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو بتایا کہ عباس ملیشیا کے زیر انتظام خفیہ اداروں نے کئی روز سے انہیں اپنے اعزہ کی ملاقات سے محروم رکھا ہوا ہے۔ پورے ایک ہفتے سے ان کا جیلوں میں موجود اپنے پیاروں سے کوئی رابطہ نہیں ہوا۔ ان کی صحت بالکل ختم ہو چکی ہے، حالت نازک ہونے کے باعث تین قیدیوں کو بیت لحم کے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ اس موقع پر اسیران کے اہل خانہ کی کمیٹی نے ہڑتال کرنے والے قیدیوں کی نازک حالت سے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی موت کی ساری ذمہ داری فلسطینی صدر محمود عباس اور خفیہ ایجنسیوں کے سربراہ ماجد فرج پر عائد ہو گی، اسیران کے لیے زندگی سے زیادہ عزیز شہادت ہے۔ اہل خانہ نے بتایا کہ مھند نیروخ، مجد عبید اور وسام القواسمی کو جمعہ کے روز ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جن میں سے مھند نیروخ کو ہفتہ کے روز بھی متعدد مرتبہ ہسپتال لایا گیا ان کو مسلسل غشی کے دورے پڑ رہے ہیں۔ ان کی زندگی انتہائی خطرے میں پڑ چکی ہے۔ وہ جمعہ کے روز سے بات چیت کرنے، کھڑے ہونے اور نماز پڑھنے کی سکت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ دوسری جانب وائل البیطار اور احمد العویوی کی حالت بھی انتہائی نازک ہے دونوں اپنے قدموں پر کھڑے ہونے سے قاصر اور دوران گفتگو شدید تکلیف سے دوچار ہیں۔ اسیران کے اہل خانہ کی کمیٹی نے بتایا کہ عباس ملیشیا کے خفیہ ایجنسی کے سربراہ ماجد فرج نے ہڑتال کرنے والے قیدیوں کی بیرکوں میں جا کر انہیں دھمکی دی ہے کہ وہ فی الفور بھوک ہڑتال ختم کر دیں اور اس بھوک ہڑتال کے بعد اگر انہوں نے دوبارہ ایسا کیا تو وہ انہیں گولیاں مار کر قتل کردیں گے اور اس بات کے پوسٹر سارے الخلیل میں تقسیم کروائیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ حماس اور ان کے اہل خانہ ان کے لیے کیا کرتے ہیں۔ دوسری جانب ان قیدیوں کے ساتھ ہڑتال کرنے والے قیدیوں کی تعداد میں اضافہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ رام اللہ جیل میں شیخ تیسیر العاروی دو دن جبکہ نابلس میں عبد الرحمن اشتیہ دس روز سے ان کے ساتھ بھوک ہڑتال میں شریک ہیں۔ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا قیدیوں کے گھر والوں نے اپنے پیاروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کے ماجد فرج ان کی نعشیں باہر لائے۔ اہل خانہ کا کہنا تھا کہ رام اللہ اتھارٹی سے فلسطینی مفاہمت پر گفت و شنید بھی مکمل طور پر بند ہے اور عباس ملیشیا کے اہلکاروں نے مغربی کنارے کے بہترین نوجوانوں، بوڑھوں، بچوں اور عورتوں کو اغوا کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، انہوں نے غزہ میں فلسطینی آئینی حکومت سے فتح حکام پر قیدیوں کی رہائی کا دباؤ بڑھانے کا مطالبہ بھی کیا۔ اس موقع پر اہل خانہ نے مغربی کنارے کی تمام مزاحمتی تنظیموں سے بھی اس ضمن میں کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔اسی طرح فلسطینی اور عالمی تمام انسانی حقوق کی تنظیموں سے مغربی کنارے میں برپا ظلم و ستم کی اس داستان کے ذمہ داروں کو عالمی عدالت کے کٹہرے میں لانے کی استدعاء بھی کی۔