برطانیا میں اخوان المسلمون اور دیگراسلامی تنظیموں کے اسرائیلی جرائم کو بے نقاب کرنے سے متعلق قابل قدرمساعی کی جاتی رہی ہیں جن کا نہ صرف عالم اسلام بلکہ دنیا کے دیگرممالک میں بھی اعتراف کیا جاتا رہا ہے۔ حال ہی میں ایک یہودی مقالہ نگار نے اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں برطانیا میں اسلامی تنظیموں بالخصوص اخوان المسلمون کی قیادت کے اسرائیل کو کمزور کرنے، فلسطین میں صہیونی جنگی جرائم کو بے نقاب کرنے اور فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے تنظیم کے کردار پر روشنی ڈالی ہے۔ مقالہ نگارایہود روزین لکھتا ہے کہ “ایسے لگتا ہے کہ برطانیا میں تمام اسلامی تنظیمیں بالخصوص اخوان المسلمون صرف ایک مخصوص ہدف پرکام کررہی ہے۔ ان کا اصل ٹارگٹ اسرائیل ہے۔ وہ اسرائیل کو بطورایک غیرآئینی ریاست کے طورپر متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والے جرائم کی سے پردہ اٹھانا ہے۔ مسٹر روزین مزید لکھتے ہیں کہ لندن میں دائیں بازو کی اسلامی تنظیموں اورصہیونیوں کے درمیان ایک کشمکش کی کیفیت ہے۔ ایک جانب یہودی، اسرائیل کو ہر پہلوسے ایک آئینی اور جمہوری ریاست بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور دوسری جانب اخوان المسلمون کی قیادت اور دیگر اسلامی تنظیمیں یہودیوں کی ان کوششوں پرپانی پھیرنے کی سرتوڑ کوشش کر رہی ہیں۔ وہ آگے چل کراخوان المسلمون کے کرداربارے میں مزید لکھتے ہیں کہ برطانیا میں اسرائیل کی مخالفت میں صرف اخوان المسلمون نہیں بلکہ حیرت یہ ہے اخوان کی قیادت نے کئی سیکولر اور قوم پرست تنظیموں کے ساتھ بھی اسرائیل کے خلاف اقدامات کے لیے اتحاد قائم کیے ہیں۔ برطانیا میں اخوان المسلمون کے دیگر تنظیموں میں سے سوشلسٹ لیبرپارٹی، جنگ بندوکرو تحریک، یکجہتی مہم برائے فلسطین اور برطانوی دارلعوام کے رکن جارج گیلوے کی تنظیم “احترام ” پارٹی شامل ہیں۔ یہ تمام جماعتیں مل کربرطانیا میں اسرائیلی قیادت کے جنگی جرائم کے خلاف عدالتوں میں مقدمات قائم کرتی اور صہیونیوں کےخلاف قانونی چارہ جوئی میں مصروف ہیں۔