اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی تعمیر میں ریکارڈ تیزی آ گئی ہے۔ 26 ستمبر سے تعمیرات پر عارضی پابندی کے خاتمے کے صرف تین ماہ میں 2000 ہزار رہائشی یونٹس کی تعمیر نے پچھلے کئی سالوں کی نسبت اس عرصے میں یہودی آبادکاری کو سب سے زیادہ تیز ثابت کر دیا ہے۔ معروف امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائمز‘‘ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے اسرائیل نے صرف مغربی کنارے میں ہی نہیں بلکہ القدس میں بھی یہودی بستیوں کی تعمیر کی رفتار شدید تیز کر دی ہے۔ دس ماہ کی عارضی پابندی کے خاتمے کے بعد سے اب تک سیکڑوں یہودی بستیاں تعمیر کی جا چکی ہیں۔ جبکہ القدس اور مغربی کنارے میں یہودیوں کو بسانے کے لیے ہزاروں رہائشی یونٹس کی تعمیر کے منصوبے بنا لیے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال القدس میں مکانات کی مسماری میں 45 فیصد اضافہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ امسال اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی القدس میں گزشتہ برس کے 275 کی نسبت 396 گھر مسمار کر کے بچوں اور خواتین سمیت 03 ہزار فلسطینیوں کو بے گھر کیا ہے۔ صہیونی تنظیم ’’پیس ناؤ‘‘ سے تعلق رکھنے والے ھاگبٹ اوفران نے کہا ’’ہم اس عرصے کو یہودی بستیوں کی تعمیر کے حوالے سے سب سے زیادہ موثر قرار دے سکتے ہیں‘‘ انہوں نے کہا کہ تین میں 2000 رہائشی یونٹس تعمیر کیے گئے جبکہ 13 ہزار گھروں کی تعمیر کی منظوری دی گئی اس کا پچھلے تین سالوں سے موازنہ کریں تو مغربی کنارے میں ہر سال اوسطا 3000 ہزار گھر تعمیر کیے گئے ہیں۔ شمالی مغربی کنارے میں یہودی بستیوں کی ’’سامرہ ریجنل کونسل‘‘ کے ترجمان ڈیوڈ ہیورے بتایا کہ ہم نے تعمیرات کے انجماد کو ختم کردیا اب ہم موخر کیے گئے منصوبوں پر کام شروع کریں گے۔ اس ضمن میں یہودی آباد کاری کی تنظیم ’’ییشا‘‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نفٹالی بیلٹ کا کہنا تھا کہ ہماری جماعت نے حکومت سے چار ہزار گھروں کی تعمیر کی اجازت مانگی ہے کیونکہ نئے گھروں کی اشد ضرورت ہے بالخصوص بڑی یہودی بستیوں میں لوگوں کی رہائش کے لیے گھر چھوٹے پڑ رہے ہیں۔ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ غاصب یہودی اپنی بستیوں میں توسیع کرتے ہوئے اطراف میں موجود ٹیلوں اور چوٹیوں اور دیگر زمینوں کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ ’’پیس ناؤ‘‘ تنظیم کے رکن اوفران نے بتایا کہ کئی ایسی یہودی بستیاں جہاں پچھلے کئی سالوں سے کوئی نئی تعمیر نہیں ہوئی تھی اس مرتبہ ان میں بھی نئی عمارتوں کے لیے کھدائیاں نظر آ رہی ہیں۔