متنازعہ فلسطینی صدر محمود عباس نے امریکا سے ایک بار پھر مطالبہ کیا ہے کہ وہ فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ راست مذاکرات کی بحالی کی یقین دہانی کرائے. انہوں نے یہ مطالبہ ایسے وقت میں کیا ہے جب حال ہی میں واشنگٹن واضح کر چکا ہے کہ وہ اسرائیل کو یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے پر قائل کرنے میں ناکام رہا ہے اور اس ضمن میں وہ تل ابیب سے مزید مذاکرات نہیں کرے گا. مرکز اطلاعات فلسطین کے ذرائع کے مطابق فلسطینی اتھارٹی کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ صدر محمود عباس نے اسرائیل سے مذاکرات اعلیٰ صائب عریقات کو ایک مراسلہ دے کر امریکی وزیرخارجہ ہیلری کلنٹن کے پاس بھیجا تھا. اس مراسلے میں صدر محمود عباس نے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو امریکا یہ بتائے کہ آیا اسکے بعد اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی نوعیت کیا ہو گی. دوبارہ مذاکرات کب اور کہاں ہوں گے اور اس سلسلے میں امریکا اب مزید کیا کر رہا ہے. ذرائع کے مطابق صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ وہ امریکا کے تفصیلی جواب کے منتظر ہیں . ہمیں امریکا یہ یقین دہانی کرائے کہ اسرائیل کے ساتھ اب دوبارہ کب مذاکرات کیے جائیں گے. فلسطینی اتھارٹی کے عہدیدار نے بتایا کہ محمود عباس نے اپنے مراسلے میں کہا ہے کہ وہ مستقبل کی فلسطینی ریاست کے حدود کے تعین کے بعد اس کی سرحدوں پر کسی تیسرے ملک کی فوجی نگرانی قبول کرنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ فلسطینی اور اسرائیلی سرحدوں پر صرف قیام امن کے لیے موجود رہے اور اس کے کوئی خطرناک عزائم نہ ہوں. انہوں نے فلسطینی پناہ گزینوں کے مسئلے کو عالمی قوانین کے مطابق حل کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا. دوسری جانب امریکی خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ جارج میچل نے فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے ایسے کسی مراسلے کی تصدیق سے انکار کیا ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ واشنگٹن مشرق وسطیٰ میں امن مذاکرات کی بحالی کے لیے ہرممکن کوششیں جاری رکھے گا. امریکی مندوب نے منگل کو فلسطینی صدر محمود عباس سے ملاقات کی اور اسرائیل کے ساتھ راست مذاکرات کی بحالی کے لیے کی جانے والی کوششوں بارے تبادلہ خیال کیا.