مقبوضہ فلسطین میں سرگرم تحریک اسلامی کے سربراہ شیخ رائد صلاح نے بہت جلد مقبوضہ بیت المقدس اور مسجد اقصی کے دورے کا اعلان کر کے القدس میں داخلے پر پابندی کے اسرائیلی فیصلے کو چیلنج کر دیا ہے۔ ’’الجزیرہ‘‘ ٹی وی کی ویب سائٹ پر شائع اپنے بیان میں شیخ صلاح نے کہا کہ ان کے دورے سے مقبوضہ بیت المقدس کے خلاف بالعموم اور مسجد اقصی کے خلاف بالخصوص اسرائیلی جارحیتوں اور ریشہ دوانیوں سے نمٹنے کے لیے نئی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کے دروازے کھلیں گے۔ شیخ رائد صلاح نے اپنے دورے کا وقت بتانے سے مکمل گریز کیا۔ شیخ صلاح کے بہ قول ان کا یہ دورہ اہالیان القدس اور وہاں کے رہنماؤں کے ساتھ مل بیٹھ کر مشترکہ سوچ و بچار اور اجتماعی غوروفکر کا مظہر ہو گا جس کے ذریعے مسجد اقصی اور بیت المقدس کے منظرنامے کو جانچ کر قبلہ اول اور القدس کی حفاظت کی نئی حکمت عملی تشکیل دی جا سکے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ مسجد اقصی اور القدس کا دفاع ہو یا اسرائیلی مکروہ منصوبوں کا مقابلہ ہر مسئلے کے لیے غور و خوض کے بعد مشترکہ حکمت عملی ترتیب دی جائے گی اور اسے اول مرحلے میں سیکریٹریٹ اور پھر فلسطین کے عرب اور مسلم قیادت کے سامنے رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایک سے زیادہ اقدامات اٹھائے جائیں گے اور اللہ کے فضل سے کامیابی نصیب ہو گی۔ یہ اقدامات کسی سے مخفی نہیں ہونگے، اول مرحلے میں قوم کو مسجد اقصی اور القدس کے دفاع کی تیاریاں شروع کرنے کا پیغام دیں گے، جس کے بعد مزید پروگرام بھی شروع کیے جائیں گے۔ بیان میں شیخ صلاح نے مسجد اقصی کے انہدام کے اسرائیلی انتباہ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اس قسم کے دعوے کوئی اچنبھے کی بات نہیں، اس کے بیانات سے بظاہر مسجد اقصی کے گرنے کا خوف ظاہر ہوتا ہے مگر اس کے آنسو مگرمچھ کے آنسو ہیں، وہ انتہائی جھوٹا ہے جس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس قسم کی باتیں اسرائیل کے خاتمے کی ہماری تحریک کو نہیں روک سکتیں۔ سنہ 1948ء سے اسرائیلی زیر تسلط علاقوں میں کام کرنے والی تحریک اسلامی کے سربراہ نے کہا کہ اسرائیل کو انہیں مسجد اقصی میں داخل ہونے سے روکنے کا کوئی اختیار نہیں۔ انہوں نے کبھی ان پابندیوں کی پرواہ نہیں کی۔ ان کا کہنا تھا ’’اسرائیل مخالفت کرے یا موافقت ہم لازمی طور پر مسجد اقصی میں جائیں گے، یہ ہمارا حق ہے‘‘ واضح رہے کہ اسرائیل نے چند روز قبل شیخ صلاح کو پانچ ماہ حراست میں رکھنے کے بعد رہا کیا ہے۔ شیخ رائد صلاح پر الزام ہے کہ انہوں نے 2007ء میں بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ کے مراکشی دروازے کے قریب ایک احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی تھی. اس مظاہرے کے دوران انہوں نے ایک پولیس افسر کو تھپڑ مار دیا تھا. اسرائیلی پولیس اہلکار کو تھپڑ کی سزا نو ماہ قید کی سزا سنائی تھی تاہم بعد ازاں ایک اپیلٹ کورٹ نے سزا میں تخفیف کرکے پانچ ماہ کر دی تھی اور ان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا تھا. انہیں 25 جولائی کو اسرائیلی فوج نے مقبوضہ فلسطین میں ان کے آبائی شہر”ام الفحم” میں ان کے گھرسے حراست میں لیا تھا۔