قابض صہیونی فوج نے فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن اور سابق وزیر وصفی قبھا کو گرفتار کر کے وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا ہے جس کے بعد ان کی حالت خراب ہونے پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے ذرائع کے مطابق قابض فوج نے سابق وزیر کو جمعہ کے روز اس وقت حراست میں لیا گیا جب وہ مغربی کنارے کے جنین شہر میں اپنے آبائی شہر برطعہ جا رہے تھے. اس دوران راستے میں ایک فوجی چوکی کے پاس انہیں روکا گیا اور گرفتار کر لیا گیا. خیال رہے کہ قابض فوج نے سابق وزیر کو ان کے آبائی گاٶں سے بے دخل کر رکھا ہے. ایک ہفتہ قبل انکے والد کی وفات پر صہیونی حکام نے انہیں اپنےآبائی شہر جانے اور چالیس دن تک قیام کی اجازت دی تھی لیکن ابھی اس واقعے کو ایک ہفتہ ہی گذر پایا تھا کہ قابض فوجیوں نے انہیں حراست میں لے لیا ہے. دوسری جانب سابق وزیر کہ اہلیہ نے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ قابض فوج نے ان کے شوہر کو فوجی چوکی پر روکنے کے بعد دو گھنٹے تک حراست میں رکھا اور انہیں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے شہر میں جانے کے بجائے واپس چلے جائیں، اس پر انہوں نے واپس جانےسے انکار کر دیا. انکار پر دہشت گرد صہیونی فوجیوں نے انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس پر انہیں غشی طاری ہو گئی اور نہیں جنین میں الخضیریہ نامی اسپتال منتقل کیا گیا ہے. خیال رہے کہ سابق فلسطینی وزیر اسلامی تحریک مزاحمت حماس کے پارلیمانی بلاک اصلاح وتبدیلی سے فلسطینی مجلس قانون ساز کےرکن ہیں. کچھ عرصہ قبل وہ فلسطینی حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں جبکہ ماضی میں انہوں نے سات سال تک اسرائیلی جیلوں میں قید بھی کاٹی ہے. اسرائیلی فوج نے ان سمیت القدس اور مغربی کنارے کے چار اراکین قانون ساز کونسل کو شہر بدر کرنے کا حکم دے رکھا ہے. دوسری جانب اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے وصفی قبھا کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے صہیونی فوج کی ریاستی دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے. فلسطینی مرکز برائے حقوق کے اسیران کے ڈائریکٹر فواد الحفش نے سابق وزیر کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے. حماس نے وصفی قبھا کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے اسے فلسطینی مجلس قانون ساز پر شب خون مارنے کی سازش قرار دیا ہے. جبکہ جہاد اسلامی اور فلسطین کی دیگر سیاسی اور عسکری تنظیموں نے بھی سابق وزیر اور مجلس قانون ساز کےرکن کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کے مطالبات کیے ہیں.