اقوام متحدہ نے فلسطین کے معاشی ناکہ بندی کے شکار شہر غزہ کی صورت حال پر ایک مرتبہ پھر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے عالمی برادری سے غزہ کے لیے امداد کی اپیل کی ہے. خیال رہے کہ غزہ کی پٹی پر قابض صہیونی حکومت نے سنہ 2006ء میں شہر میں اسلامی تحریک مزاحمت “حماس” کی حکومت کے قیام کے بعد سے مسلسل معاشی ناکہ بندی کر رکھی ہے. پانچ سال کے عرصے میں شہر بدترین معاشی بحران سے گذر رہا ہے. غربت میں بےپناہ اضافہ اور بے روزگاری کے باعث شہریوں کو دو وقت کا کھانا بھی بہ مشکل میسر ہو رہا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اقوام متحدہ کے نیویارک میں قائم دفتر سے جاری ایک بیان میں غزہ کی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا ہے. بیان میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارے اور بین الاقوامی برادری کی طرف سے شہر کی معاشی ناکہ بندی توڑنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود شہر کے ڈیڑھ ملین انسانوں کے مسائل تاحال برقرار ہیں. بیان میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ شہر کی معاشی ناکہ بندی کو توڑنے اور شہریوں کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے مزید ہنگامی بنیادوں پر امداد کی اشد ضرورت ہے، لہٰذ عالمی برادری اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں دوبارہ امداد کے لیے متحرک ہوں. دوسری جانب اقوام متحد ہ کے ادارہ برائےبحالی پناہ گزین “اونروا” کے ڈائریکٹر جون گینگ نے بھی غزہ کی معاشی صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے. اپنے ایک بیان میں مسٹرجون کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں کم ازکم 08 لاکھ فلسطینی بچے نہایت کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں. معاشی ناکہ بندی کے باعث نہ صرف شہریوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے بلکہ اسکولوں میں تعلیم جاری رکھنا بھی مشکل ہو گیا ہے. صحت کا شعبہ بھی بحران کا شکار ہے. درجنوں قسم کی بنیادی ضرورت کے استعمال کی ضروری ادویات بھی ناپید ہیں. یو این اہلکار کا کہنا تھا کہ غزہ کی پٹی میں اقوام متحدہ کے زیراہتمام 100 اسکول قائم ہیں، جن میں سے بیشتر کو اسرائیلی فوج نے دسمبر 2008ء کی جنگ میں بمباری کر کے تباہ کر دیا تھا، ان میں سے اکثراسکولوں کی تعمیرات تاحال نہیں کی جا سکیں. خیموں میں شروع کیے گیے اسکولوں میں سردی کے موسم میں بچوں کو مشکلات کا سامنا ہے.