اسرائیل کی ایک فوجی عدالت نے دو صہیونی فوجی اہلکاروں کو دسمبر2008ء میں غزہ کی پٹی پر مسلط جنگ میں ایک فلسطینی بچے کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے پرصرف تین ماہ قید کی سزا کا حکم سنایا ہے. دوسری جانب مبصرین نے اسرائیلی فوجی عدالت کے فیصلے کو نہایت مضحکہ خیز اور عدل وانصاف کے اصولوں کے منافی اقدام قرار دیا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی فوج کے جنوبی ریجن کی فوج کے مقدمات کی سماعت کے لیے قائم عدالت نے دو سال قبل غزہ جنگ کے دوران ایک نو سالہ فلسطینی بچے کو ڈھال بنانے کے مقدمہ کی سماعت کی. اس کیس میں اسرائیلی فوجیوں پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے ایک کم سن فلسطینی لڑکے کو مشتبہ دھماکہ خیز مواد پر مشتمل ایک بیگ کو کھولنے پر مجبور کیا تھا، تاہم اتفاق سے اس پیکٹ میں ایسی کوئی خطرنا ک چیز نہ تھی جس سے بچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا. عدالت نت دونوں فوجیوں کی ” فرسٹ سارجنٹ” سے سارجنٹ میں ترقی بھی روک دی ہے. دوسری جانب اسرائیلی فوج میں شامل ایک اعلیٰ سطح کے عہدیدار میجر جنرل عوزی ڈایان نے اپنے ایک بیان میں فوجی عدالتوں کے وجود اور ان کے فیصلوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہے اسرائیل میں فوجیوں کے لیے عدالتوں کی کوئی ضرورت نہیں. ان کا کہنا تھا کہ پولیس کو بھی یہ اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ ایک فوجی اہلکار سے کسی بھی جرم کے الزامات کی تحقیقات کر سکے.