اسرائیلی کنیسٹ نے ایک نیا متعصبانہ قانون منظور کیا ہے جس کے تحت سنہ 1948ء سے اسرائیلی زیر تسلط فلسطین میں غیر یہودی فلسطینیوں کا یہودی اکثریت والے علاقوں میں داخلہ ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
اسرائیلی ذرائع نے واضح کیا ہے کہ اس قانون کے تحت صہیونی علاقوں کی مقامی کمیٹیوں کو یہ اختیار دے دیا جائے گا کہ اپنی مرضی کے خاندانوں کو ان علاقوں میں رہائش رکھنے کی اجازت دیں، ذرائع کے مطابق اس قانون کو فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا اور یہ فلسطینیوں کے خلاف ایک متعصب قانون ہے، کیونکہ اس کے بعد یہودی اکثریت رکھنے والے علاقوں میں کسی بھی فلسطینی درخواست کو مسترد کیا جاسکے گا۔
دوسری جانب صہیونی سرکاری عہدے داروں کے ایک گروپ نے ایک درخواست پر دستخط کیے ہیں جس میں اسرائیلی پارلیمان سے اس مجوزہ بل کی منظوری روکنے کا کہا گیا ہے۔ گروپ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست کی تاریخی اور اخلاقی بنیادوں کے منافی یہ قانون اسرائیل کے ماتھے پر ایک بدنما داغ بن جائے گا، اس قانون سے نسل پرستی اور انتہاء پسندی کے فروغ کے ساتھ ساتھ ساری دنیا میں یہودیوں کے خلاف نفرت کا آغاز ہو جائے گا۔
صہیونی پارلیمان کی پارٹی ’’اسرائیل بیتنا‘‘ کے رکن ڈیوڈ روٹم نے کہا کہ اس قانون کا ہدف اسرائیلی کمیونٹیز کو خود کو صہیونی قرار دینے میں ثابت قدم کرنا اور ان علاقوں میں غیر یہودیوں کی رہائش کو روکنا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حالیہ بل معاشرتی امتیاز اور ناانصافی کی پردہ پوشی کر رہا ہے اس قانون کے تحت ایک اسرائیلی گروہ دوسرے کے ساتھ رنگ، نسل، مال و دولت اور ظاہری مرتبے کی بنیاد پر امتیاز برتنا شروع کر دے گا۔