اسرائیلی کے اٹارنی جنرل یہودا ونسٹائن کے احکامات کے بعد اسرائیلی حکام نے سیکڑوں گھروں کو منہدم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس سے مقبوضہ بیت المقدس کے حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے وسطی سلوان میں یہودی آباد کاری کے لیے اطراف کے سیکڑوں گھروں کو منہدم کرنے کی ہدایات دی گئی تھیں۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق صہیونی بلدیہ اور اسرائیلی فوج کے طرف سے انہدامی نوٹس کے اجراء کے بعد اس مقدس شہر کے حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ حالیہ صہیونی احکامات کے بعد مقبوضہ بیت المقدس میں صدیوں سے آباد فلسطینیوں کے گھروں کی انہدامی کارروائیاں دوبارہ شروع ہونے کے خطرات بڑھ گئے ہیں جس پر کمیٹی برائے دفاع سلوان کے رکن فخری ابو ذیاب نے ونسٹائن کی جاری کردہ ہدایات سے پیدا ہونے والے خطرے سے خبردار کیا ہے۔ واضح رہے کہ ونسٹائن نے یہ ہدایات القدس کی صہیونی بلدیہ کے سربراہ اور شہر کی پولیس کی منتخب قیادت کی موجودگی میں گھروں کے انہدامی آرڈرز پر عملدرآمد کے لیے منعقد ایک اجلاس میں دی تھیں۔ ابو ذیاب نے الجزیزہ ٹی وی کے ویب پورٹل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ روز قبل گھروں کی مسماری کے نوٹس وصول کرنے والے القدس کے ہزاروں باسی شدید خوف و ہراس میں مبتلا ہیں کیونکہ ان کے گھر کسی بھی وقت منہدم کیے جاسکتے ہیں، صہیونی بلدیہ کے انکشاف کے مطابق اسرائیل کی جانب سے بالخصوص عباسی، ابو رمیلہ اور دیگر خاندانوں کو عتاب کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حالیہ احکامات کے بعد بلدیہ کے اہلکاروں نے سلوان اور بستان کالونی کے چکر کاٹنا شروع کردیے ہیں اور بلدیہ کا عملہ مجوزہ منہدم کیے جانے والے گھروں کی تصاویر اور ان کے رہائشیوں کی تعداد کی گنتی میں مصروف ہے۔ سلوان دفاعی کمیٹی کے مطابق کالونی کے 340 گھروں کو انہدامی نوٹس دینے کی وجہ بغیر اجازت تعمیر بتائی گئی ہے۔ اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ 1967ء میں بیت المقدس پر قبضہ کے بعد سے اب تک اسرائیلی حکام نے صرف 60 گھروں کی تعمیر کی اجازت دی ہے۔ بیت المقدس کے وکیل احمد رویضی نے اس صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صہیونی حکومت کے اٹارنی جنرل کی جانب سے اہالیان القدس کے سیکڑوں گھروں کو منہدم کرنے کی ہدایات کے بعد بیت المقدس میں حالات انتہائی دگر گوں ہیں۔ رویضی نے جمعرات کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی عدالتوں کی جانب سے القدس کے 20 ہزار گھروں کے متعلق بغیر پرمٹ تعمیر یا تعمیراتی اصولوں کی مخالفت کے فیصلے دیے جا چکے ہیں، اور تعمیراتی ہدایات پر عمل درآمد نہ کرنے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ان گھروں کو منہدم نہیں کیا جائے گا، بغیر اجازت تعمیر کیے جانے والے گھروں کی طرح ان مکانات کو بھی کسی بھی وقت منہدم کیا جا سکتا ہے، 20 ہزار مکانات کے انہدام کا مطلب ایک لاکھ فلسطینیوں کو بے گھر کرکے القدس سے ہجرت پر مجبور کرنا اور ان کی جگہ یہودیوں کو لا کر بسانے کے لیے نئی یہودی بستیاں تعمیر کرنا یا پرانی بستیوں میں توسیع کرنا ہے اور اس طرح آبادی کا تناسب تبدیل کرکے اس شہر کو یہودی رنگ میں رنگ دیا جائے گا۔ مسٹر رویضی نے بتایا کہ ان بیانات کے بعد سب سے زیادہ خطرہ سلوان کے علاقے کو ہے بالخصوص اس کی بستان کالونی میں اسرائیلی فوج نے 88 گھروں کو منہدم کرکے 1500 شہریوں کو بے دخل کرنے کی دھمکی دے رکھی ہے، منصوبے کے تحت ان گھروں کی جگہ حضرت داؤد علیہ السلام سے منسوب ’’باغ داؤد‘‘ تعمیر کیا جائے گا۔ انہوں نے یہودی بستیوں کی تعمیر پر تین ماہ کی عارضی پابندی کے متعلق رپورٹوں کے متعلق بتایا کہ اس پابندی میں القدس کی عدم شمولیت سے حالیہ فیصلوں پر فوری عملدرآمد کا گرین سگنل دے دیا گیا ہے اور عنقریب القدس اوراس کے شہریوں کو آبادی کے تناسب میں تبدیلی کے ان ناپاک منصوبوں پر عمل درآمد سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ رویضی نے بتایا کہ وہ القدس میں کام کرنے والی عالمی تنظیموں اور ایجنسیوں کو صہیونی حکومت کے اٹارنی جنرل کے بیانات کے خطرے اور سنجیدگی سے آگاہ کر رہے ہیں۔ اور آنے والے دنوں میں بیت المقدس کو لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے قانونی اور قومی سطح پر بھی رابطے جاری ہیں۔