یہودی جنونیوں کی 27 ستمبر کو مقبوضہ بیت المقدس کی مقدس ترین مسجد میں بلااشتعال نقب زنی روئے زمین پر موجود ہر مسلمان کے لئے لمحہ فکریہ ہونی چاہیے- یہ چند یہودی یاتریوں کی جانب سے اسلام کی تیسری مقدس ترین مسجد کا معصومانہ دورہ نہیں تھا جیسا کہ اسرائیلی پراپیگنڈا مشین کی جانب سے دعوی کیا جا رہا ہے بلکہ یہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا ایک سوچا سمجھا اور پناتلا منصوبہ تھا- ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہودی جنونی مسجد اقصی کا دیدار کرنے تو نہیں آتے‘ ان کے پیش نظر اسلامی شعائر کے خلاف سازش ہوتی ہے یا پھر اس میں تضحیک و بے ادبی کا پہلو ہوتا ہے- مختصراً یہ کہ ان کا مقصد اسلام کے مقامات مقدمہ کی بے حرمتی اور دہشت پھیلانا ہوتا ہے- ماضی قریب اور بعید میں سیاحوں کا روپ دھارنے والے ان یہودی دہشت گردوں نے مسلمان عبادت گزاروں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جب اسرائیلی فوج نے بیت المقدس پر قبضہ کیا تو صیہونی آ رمی چیف ربی شلومو گورین نے ایک فاتح کمانڈر کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی کہ مسجد اقصی کو دھماکے سے اڑا دیا جائے تاکہ یہ قصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو- یہ بات کسی اور نے نہیں بلکہ ایوی شالم نے اپنی کتاب ”The Iron wall Israel and the Arab word” میں لکھی ہے- وہ لکھتا ہے ’’تمام فضا روحانیت سے معمور تھی- اسرائیلی چھاتہ بردار اتر رہے تھے- فاتح کمانڈر نرکس سوچوں میں گم کھڑا تھا کہ گورین نے اس کا کندھا ہلاتے ہوئے کہا ’’یہ مناسب وقت ہے کہ ہم مسجد اقصی میں ہزاروں کلوگرام دھماکہ خیز مواد رکھ کر اسے تباہ کردیں اور اس معاملے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نجات حاصل کرلیں‘‘- نرکیس نے کہا ’’ربی! یہ بکواس بند کرو‘‘ تب گورین نے کہا اگر تم یہ کام کر گزرو تو تم تاریخ کی کتابوں میں مر ہوجائو گے‘ نرکس نے جواب دیا میں تو پہلے ہی مقبوضہ بیت المقدس کی تاریخ میں اپنا نام درج کرا چکا ہوں‘ یہ جواب سننے کے بعد گورین بغیر کچھ اور کہے چلا گیا‘‘- 21 اگست 1969ء کو ایک مسیحی صیہونی ڈینس مائیکل روحن نے آتش گیر مادہ استعمال کرتے ہوئے صلاح الدین کے مقبرے کو آگ لگا دی- 11 اپریل 1982ء کو ایک یہودی دہشت گرد الان کڈمین مسجد میں داخل ہوا اور چھت پر چڑھ کر اندھا دھند فائرنگ کردی جس سے بیسوں مسلمان شہید اور زخمی ہوگئے لیکن یہودی دہشت گرد تنظیم جسوش ڈیفنس لیگ کے اس رکن گڈمین کو چند سال جیل میں رکھنے کے بعد ہی معافی دے دی گئی- حقیقت تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقامات مقدسہ کے خلاف یہودی دہشت گردوں کی نت نئی دہشت گردی کا سلسلہ کبھی ختم ہی نہیں ہوا- یہ بھی حقیقت ہے کہ یہودی دہشت گرد اعلانیہ طور پر اپنے ان مذموم عزائم کا اظہار کرچکے ہیں کہ ان کا مقصد اسرائیلی حکام اور اسرائیلی پارلیمنٹ کے ارکان بھی شامل ہیں انہیں کبھی گرفتار نہیں کیا گیا- صرف یہی نہیں بلکہ ان لوگوں کو صیہونی ریاست کی فوجی و سیاسی اسٹیبشلمنٹ کی پوری پوری حمایت اور پشت پناہی حاصل ہے‘ لہذا مسلم دنیا کو ان حالیہ واقعات کو سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ یہ اقدامات ان مقامات مقدمہ کو گرائے جانے سے کم نہیں- اگرچہ پہلے بھی مسلم حکام اور حکومتیں ان اشتعال انگیز کارروائیوں کے خلاف آواز بلند کرتی رہی ہیں مگر اب صرف زبانی کلامی مذمت اور اظہار افسوس سے کام نہیں چلے گا اور اتنا احتجاج اسرائیل کو مقبوضہ بیت المقدس کے حرام الشریف کے احترام پر مجبور کرنے کے لئے کافی نہیں- مذاہب کا احترام کبھی صیہونی ریاست کا وطیرہ نہیں رہا‘ لہذا اسرائیل سے یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ ہمارے مذہبی مقامات کا تقدس اور احترام بحال رکھے گا- بجائے مذمت کے ان روایتی جملوں کے جو ہم شروع سے سنتے آ رہے ہیں‘ مسلم تنظیموں‘ عوام اور حکومتوں کو اپنے مقامات مقدسہ کے تحفظ کے لئے سرگرعمل ہونا ہوگا- پہلی بات یہ ہے کہ ہم مسجد اقصی کے باہر محافظوں کی تعداد بڑھا کر اس کی سکیورٹی کو یقینی بنائیں کیونکہ یہ ان گمنام سپاہیوں اور محافظوں کا ہی کارنامہ تھا کہ مسجد اقصی میں داخل ہونے کی اب تک کی تمام یہودی کاوشوں کو ناکام بنا دیا گیا- دوسرا یہ کہ مسلم ممالک اور بالخصوص وہ ممالک جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی روابط ہیں- مثلاً ترکی‘ مصر اور اردن‘ ان ممالک کو حرم الشریف کا معاملہ پہلی ترجیح پر رکھنا چاہیے- صرف اتوار کے روز پیش آنے والے واقعات پر اظہار تشویش ہی کافی نہیں بلکہ مسلم حکومتیں اسرائیل کو دوٹوک انداز میں بتا دیں کہ مسجد اقصی سرخ لیکر ہے اور کسی کو بھی یہ یکسر عبور کرنے نہیں دی جائے گی اور جہاں تک فلسطینیوں کو تعلق ہے تو وہ صیہونی جارحیت کے خلاف مقبوضہ بیت المقدس ہی نہیں پورے‘ مقبوضہ فلسطین میں پہلی دفاعی لائن ہیں اس لئے فلسطینی حرم الشریف میں ہمہ وقت موجودگی کو یقینی بنائیں- فلسطینیوں کی مسجد اقصی میں یہ پرامن موجودگی اس لئے اہم ہے کہ اس سے صیہونیوں کو یہ پیغام ملتا ہے کہ مسلمان اور بالخصوص فلسطینی القدس شریف سمیت اپنے مقامات مقدسہ کے تحفظ کی خاطر ضرورت پڑنے پر کسی بھی حد کو جانے کو تیار ہیں-