فلسطینی وزیراعظم اسماعیل ھنیہ نے حماس اور فتح کے مابین مذاکرات کے اگلے دور کو فلسطینی مصالحت کے لیے حقیقی امتحان قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگلی ملاقات میں مذاکرات کے لیے وقت کے تعین اور سکیورٹی معاملات پر خصوصی توجہ مصری مصالحتی دستاویز پر دستخط کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہو گا۔ اس ملاقات کے سبب متفقہ معاہدے کے عملی پروگرام اور شیڈول کے تعین کا نیا باب کھل جائے گا۔ ھنیہ نے اس موقع پر خبردار کیا کہ مذاکرات کے لیے وقت کے تعین میں تاخیر اور پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے مصالحت کو مذاکرات کے ساتھ ملانے اور سکیورٹی کے معاملات پر کسی بڑے بریک تھرو کے نہ ہونے کی وجہ سے ایک ناپسندیدہ منفی تاثر پیدا ہو گا اور مذاکرات ناکامی کا شکار ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ایگزیکٹو کمیٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ مذاکرات سے دستبرار ہونے فیصلہ ایک اچھا قدم ہے، لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس اقدام کو صرف ایک حربہ کے طور پر استعمال نہ کیا جائے بلکہ حقیقی معنوں میں مذاکرات سے الگ ہو کر ملک کے سیاسی اور قومی افق پر یک جہتی کا مظاہرہ کیا جائے۔ انہوں نے مغربی کنارے میں حماس کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں روکنے اور اغوا شدہ افراد کی رہائی کا مطالبہ بھی کیا۔ کیا فتح کی جانب سے دمشق میں حماس کے ساتھ ملاقات کا مقصد دباؤ ڈال کر اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کرنا تھا، اس سوال کے جواب میں ھنیہ کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے متعلق ہمارا موقف بالکل واضح ہے ہم امریکا پر انحصار کو مسترد کرتے ہیں۔ فلسطینی وزیراعظم کے مطابق فلسطینی مصالحت کے لیے کی جانے والی ساری جدو جہد کو اس ضمن میں مصر اور عرب دنیا کے فریم ورک کے تابع ہونا چاہیے۔