محصورین غزہ کی عید بھی سال کے دوسرے دنوں کی طرح گذر رہی ہے۔ ان کی عید، دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمانوں کی طرح نہیں کیونکہ اسرائیلی جرائم نےغزہ کے باسیوں کی عید کی خوشیاں غموں میں تبدیل کر رکھی ہیں۔ اسرائیلی جارحیت نے اہل غزہ پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ جس طرح ہر خوشی کے موقع پر شہداء، اسیران کے اہل خانہ اور غریبوں کے غم تازہ ہو جاتے ہیں اسی طرح عید کے پرمسرت موقع پر محاصرے اور مختلف پابندیوں کے سبب ایک دوسرے سے بچھڑنے والوں اہل غزہ کے زخم بھی ہرے ہوجاتے ہیں۔
خوشی پر غموں کی زیادتی غزہ کی رہائشی 43 سالہ فریال جابر بھی اسرائیلی محاصرے کے ستائے افراد میں سے ایک ہیں۔ عید کے پرمسرت موقع پرغم وغصے سے نڈھال فریال کے غیظ وغضب کی وجہ اسرائیل کی جانب سے انہیں مقبوضہ مغربی کنارے میں موجود اپنے اہل خانہ اور رشتے داروں سے ملنے کی اجازت نہ دینا ہے۔ جابرنے”مرکز اطلاعات فلسطین” کو بتایا کہ ہر خوشی کے موقع پر دوسرے لوگوں کے برعکس میری تکالیف میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ لوگ خوش ہوتے ہیں اور میں غمزدہ۔ اس کی وجہ یہ ہی ہے کہ میں مغربی کنارے نہیں جا سکتی، میری شادی غزہ کی پٹی میں ہوئی، میرے ماں باپ بھائی بہن اور دیگر رشتے دار مغربی کنارے میں ہیں اوراسرائیل کسی طرح بھی مجھے مغربی کنارے جانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ جابر نے عید پر اپنے گھر والوں سے ملنے کی شدید خواہش کا اظہار کیا اور امید ظاہر کی کہ غزہ کا محاصرہ جلد ختم ہوجائے گا۔ انہوں نے عالمی برادری سے غزہ کا ظالمانہ محاصرہ ختم کروانے اور اسرائیل کی جانب سے بند کراسنگ کھلوانے کا مطالبہ کیا۔ اسرائیل نے غزہ کے رہائشیوں پر تکالیف کے پہاڑ توڑنے کے لیے کئی سالوں سے غزہ کی پٹی کا محاصرہ کر رکھا ہے۔ صہیونی ریاست نے غزہ کے تمام پھاٹکوں پر بھی قبضہ جما رکھا ہے۔ کسی کو بھی غزہ داخلے یا باہر جانے کی اجازت نہیں ہے، اس طرح اسرائیل انسانی حقوق کے تمام عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر رہا ہے۔
عیدوں پر اسرائیل کے خلاف نفرت میں اضافہ غزہ کی پٹی میں بسنے والی 45 سالہ مریم حسن کا حال بھی جابر سے مختلف نہیں ہے۔ وہ بھی بیت حانون ’’ایرز‘‘ کراسنگ کی بندش کی بنا پر سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں مقیم اپنے خاندان سے ملنے سے محروم ہیں۔ اسرائیل انہیں اپنے ماں باپ، بہن بھائی سے ملنے کا اجازت نامہ دینے سے متعدد مرتبہ انکار کر چکا ہے۔ حسن نے اسرائیلی پالیسیوں پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا “خوشی کے تمام ایام میرے لیے اسرائیل کے لیے بد دعا کرنے کا موقع ہوتا ہے۔ میں اسرائیل سے کتنی نفرت کرتی ہوں اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔ اسرائیل متعدد مرتبہ مجھے سنہ 1948ء کے علاقوں کا سفر کرنے سے روک چکا ہے۔ صہیونی حکام نے ان علاقوں کا سفر کرنے کا اجازت نامہ جاری کرنے سے بھی صریح انکار کردیا ہے۔ مریم حسن سمجھتی ہیں کہ دنیا کی کوئی خاتون اپنے گھر والوں سے نہ ملنے کی تکلیف کی بنا پر ان سے زیادہ غمزدہ نہ ہوگی، تاہم اپنے قریبی عزیزوں کی ملاقات سے محروم حسن نے امید ظاہر کی ایک دن یہ مشکلات اور نا امیدی ضرور ختم ہو کر رہے گی۔
جذبات سے عاری بے خانماں افراد دوسری جانب غزہ کے محاصرے کے سبب سنہ 1948ء کے مقبوضہ علاقوں میں بسنے والے فلسطینی بھی شدید مسائل کا شکار ہیں۔ ایسے ہی ایک فلسطینی 51 سالہ ماجد موسی شدید غم وحزن میں ڈوبے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں دس سالوں سے غزہ میں مقیم انکے ماں باپ اور بھائیوں سے ملنے نہیں دیا جارہا، فلسطینیوں کے ہاں ہمیں “بے گھر” کا لقب دے دیا گیا ہے۔ غم سے نڈھال موسی کا کہنا ہے “میری خواہش ہے کہ میں غزہ کی مٹی کو چوموں، اس کی بھینی خوشبو سونگھوں، ہم غزہ کے بیٹے ہیں مگر اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔ اس کی وجہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ کیے جانے والے معاہدے ہیں، جس کی وجہ سے ہم اپنی ہی سرزمین پر داخلے سے محروم ہیں کیونکہ ہم ’’بے گھر‘‘ ہیں اور ہمیں واپسی کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے کہا میں اپنے گھر والوں سے صرف فون پر ہی بات کر کے گزارا کر لیتا ہوں جو ملنے کا نعم البدل نہیں، فون میری محبت بھرے جذبات ان تک پہنچانے سے قاصر ہے۔ ہم سب ایک دوسرے سے ملنے کے لیے بے تاب ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ہم کب تک اس طرح ایک دوسرے سے جدا رہیں گے؟ ہم ایسی زندگی گزار رہے ہیں جیسے ہمارے کوئی جذبات اور احساسات ہی نہیں، وقت آ گیا ہے کہ ہماری مشکلات ختم کی جائیں۔
معلق خواب مصائب و آلام میں گھرے ایسی ہی سیکڑوں فلسطینی غزہ میں مقیم ہیں جو صہیونی ریاست کے ظالمانہ محاصرے کی وجہ سے برسوں سے اپنے گھر والوں کی زیارت کرنے پر قادر نہیں، اسرائیل کے مکروہ چہرے کی جھلک غزہ محاصرے کے علاوہ اس وقت بھی سامنے آتی ہے جب فلسطین کے باہر ہزاروں فلسطینیوں کو عیدین اور دیگر اسلامی تہواروں کے موقع پر بھی فلسطین میں اپنے اہل خانہ سے ملنے نہیں دیا جاتا۔ قابض اسرائیلی حکام فلسطینیوں کو آزادی سفر کے حق سے محروم کرکے بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ برسہا برس سے اپنے پیاروں کی ملاقات سے محروم فلسطینیوں کے خوابوں پر بھی پابندیاں لگا دی گئی ہیں۔