حال ہی میں قاہرہ میں منعقدہ عرب لیگ کے اجلاس کے دوران فلسطین کی جانب سے پیش کردہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیل سنہ 2020 ء تک مقبوضہ بیت المقدس کی عرب آبادی کو کم سے کم کر کے 12 فیصد تک لانا چاہتا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق عرب لیگ میں پیش کردہ یہ رپورٹ انٹرنیشنل القدس فاٶنڈیشن کے آئندہ سال قطر میں ہونے والے اجلاس اور اگلے ماہ لیبیا کے شہر سرت میں ہونے والے عرب لیگ کے اجلاس کی تیاریوں کے سلسلے میں پیش کی گئی ہے. رپورٹ کی تیاری کا مقصد عرب ممالک کو اسرائیل کے مقبوضہ بیت المقدس سےمتعلق ناپاک ارادوں سے آگاہ کرنا ہے. رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل نے رواں سال مقبوضہ فلسطین اور بیت المقدس میں فلاحی اور رفاہی تنظیموں کو کالعدم قرار دے کر ان پر پابندی عائد کر دی ہے جبکہ مقبوضہ فلسطین کے شہر یافا میں فلسطینیوں کی سول کورٹس کو ختم کر کے ان کی جگہ اسرائیلی عدالتیں قائم کی گئی ہیں. رپورٹ کے مطابق خلاف عثمانیہ کے دور میں فلسطین میں عیسائیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں اور انہیں دی گئی مراعات کو برقرار رکھا گیا ہے تاہم قابض اسرائیل نے فلسطینیوں کو فراہم کردہ مراعات ختم کرنے اور ان کی جگہ یہودیوں کو زیادہ سے زیادہ حقوق فراہم کرنے پر زور دیا ہے. مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کی بے دخلی اور یہودیوں کے اثرونفوذ میں اضافے کے لیے ایسے ظالمانہ قوانین وضع کیے جا رہے ہیں جس سے فلسطینی اور عرب شہری اپنے ادنیٰ حقوق سے بھی محروم ہوتے جا رہے ہیں. اسرائیل کی طرف سےالقدس کے اصلی باشندوں کے ساتھ مہاجرین کی طرز پر سلوک کیا جا رہا ہے. اسرائیلی وزیرداخلہ کی ہدایت پر بڑی تعداد میں القدس کے خاندانوں کی شہریت سے متعلق دستاویزات سلب کی گئی ہیں. اس ضمن میں اسرائیل نے القدس کے شہریوں پر مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے آنے پر کڑی شرائط عائد کی ہیں جبکہ دوسری جانب یہودیوں کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخلے کو مباح قرار دیا گیا ہے.