اسلامی تحریک مزاحمت”حماس”کے مرکزی راہنما اور سیاسی شعبے کے رکن ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا ہے کہ فتح اور اس کی مرکزی قیادت کو یہ اندازہ اور ادراک نہیں کہ اسرائیل کے ساتھ نام نہاد امن مذاکرات اور کسی بھی سمجھوتے کے کتنے خطرناک نتائج مرتب ہوں گے.
اسرائیل اور فلسطینیوںکے درمیان کئی اہم اور بنیاد نوعیت کے معاملات حل طلب ہیں اور فتح مذاکرات میں ان تمام معاملات کو نظرانداز کر رہی ہے. انہوں نے کہا کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان جنگ میں بیت المقدس، پانی، سیکیورٹی اور مغربی کنارے کا مستقبل وغیرہ بھی اہم ترین مسائل ہیں. تاہم فتح ان تمام اہم امور کو فراموش کر کےاسرائیل کے ساتھ بے سود امن سمجھوتے کی رٹ لگائے ہوئے ہے.
جمعہ کے روز ایک فرانسیسی ٹیلی ویژن کو انٹرویو میں ڈاکٹر الزھار کا کہنا تھا کہ اسرائیل فلسطینی کی زیادہ سے زیادہ زمین کو غصب کرکے صہیونی ریاست میں شامل کرنا چاہتا ہے. اور غصب شدہ اراضی کو قانونی اور آئینی حیثیت دینے کے لیے اس میں جنگی بنیادوں پر یہودی بستیوں اور کالونیوں کی تعمیر کر رہا ہے.
ایک سوال کےجواب میں انہوں نے کہا کہ مغربی کنارے میں سلام فیاض کی حکومت، محمود عباس کی سیکیورٹی فورسز اور اسرائیلی فوج کے درمیان مکمل ہم آہنگی موجود ہے اور یہ تمام مل کر فلسطینی مزاحمت کاروں کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں.
مغربی کنارے میں فلسطینیوں کی گرفتاریوں، ان کی نظربندیوں اور شہادتوں میں جہاں اسرائیلی فوج کا ہاتھ ہے وہیں سلام فیاض کی حکومت اور محمود عباس کے زیرکمانڈ سیکیورٹی فورسز بھی ان جرائم میں برابر کی شریک ہیں.ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں فتح نے غزہ میں حکومت کے دوران اسرائیلی دشمن کے ساتھ اسی طرح کا تعاون شروع کیا تو انتخابات میں اسے بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا.
فلسطینی عوام اسرائیل سے دوستی رکھنے والوں کو کسی صورت بھی معاف نہیں کریں گے.فلسطین اور اسرائیل کے درمیان جاری راست مذاکرات کے بارے میں ڈاکٹر محمود الزھار نے کہا کہ ہم کئی مرتبہ یہ واضح کر چکے ہیں کہ ان مذاکرات کا فلسطینی عوام کوکوئی فائدہ نہیں.یہ مذاکرات ماضی کے ادوار کی طرح ناکامی سے دوچار ہوں گے اور فتح کو ایک بار پھر رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا، اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ فتح کے پاس اب بھی وقت موجود ہے. وہ ان بے سود مذاکرات میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے مغربی کنارے میں مزاحمت کی قوت کو مضبوط کرے. غاصب سے آٓزادی کے لیے مذاکرات نہیں جنگ کی ضرورت ہے. ماضی میں جرمن نازیوں سے آزادی کے لیے فرانسیسیوں نے بھی یہی راستہ اختیار کیا اور ہردور میں ہرقوم نے اپنے آزادی کے حق کو تلوار اور بندوق کے زور ہی پر حاصل کیا ہے.