اسرائیلی عدالت کی جانب سے باب المغاربہ تا مسجد اقصی بریج کی تعمیر کے فیصلے کے بعد فلسطین کی متعدد تنظیموں اور شخصیات نے اس ظالمانہ اقدام کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اسلامی وقف پر حملہ اور علاقے کی اسلامی علامات کو مٹانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ فلسطینی رہنماؤں نے کہا کہ اسرائیل اسلامی وقف میں شامل اس علاقے کی ثقافتی تاریخ کے تبدیل کر رہا ہے۔ القدس میں اسلامی اوقاف کے ڈائریکٹر شیخ عزام الخطیب نے کہا کہ جس وقت 02 جون 2004ء کو تلہ مغاربہ کی جانب شاہراہ کو ختم کیا گیا ہم تب سے واضح موقف اپناتے ہوئے اس سڑک کی بحالی کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سڑک کی تعمیر نو اور بحالی محکمہ اوقاف کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ الخطیب نے واضح کیا کہ اوقاف نے کسی کو اپنا نام استعمال کر کے صہیونی عدالتوں کے پاس جا کر ایسے فیصلے کروانے کا اختیار نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ اوقاف کے ذمہ دار اسلامی وقف میں شامل اس علاقے کے متعلق کسی صہیونی قانون کو تسلیم نہیں کرتے۔ اسرائیلی عدالتوں کو مسجد اقصی کے اس لازمی حصے کے متعلق مداخلت کا کوئی اختیار نہیں۔ دوسری جانب ڈاکٹر عکرمہ صبری نے القدس کی اسلامی تنظیم کی نمائندگی کرتے ہوئے باب المغاربہ کے علاقے کو لاحق خطرات سے آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی جانب سے اس علاقے سے مسجد اقصی کی جانب جانے والے راستے کو ختم کر کے اس کی جگہ بریج قائم کرنا بڑا تشویشناک ہے۔ ان کے بہ قول اس راہ گذر کا خاتمہ دراصل وقف اسلامی پر حملہ ہے کیونکہ یہ علاقہ وقف اسلامی میں شامل ہے، اس علاقے کا ایک حصہ بنوامیہ کے عہد میں بھی اسلامی وقف میں شامل کیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس سڑک کو ختم کر کے صہیونی ریاست علاقے کی قدیم اسلامی نشانیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اس علاقے کی فطری تاریخی ثقافت کو بھی تبدیل کرنے کے درپے ہے۔ قبل ازیں کثیر الاشاعت صہیونی اخبار ’’ھارٹز‘‘ نے کہا تھا کہ القدس میں نام نہاد ’’اسرائیلی ڈسٹرکٹ کورٹ کے سربراہ‘‘ نے مسجد اقصی میں داخلے کے قریب دیوار براق اور باب المغاربہ کو ملانے والے مغاربہ بریج کی تعمیر کا فیصلہ کیا ہے۔ یاد رہے کی 2004ء سے جاری مسجد اقصی آنے والے راستوں اور دروازوں پر صہیونی تعمیرات کے سلسلے میں اس وقت شدت آ گئی ہے جس لمحے فلسطینیوں اور پوری امت مسلمہ کے مسلمانوں کے اسرائیل کے خلاف غم و غصہ میں اضافہ ہو رہا ہے، اور فلسطینی شاہراہوں پر مسلمان نمازیوں اور اسرائیلی فوج کے مابین جھڑپیں آئے روز کا معمول بن چکی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ حالیہ تعمیرات کو مسئلہ فلسطین کے لیے انتہائی حساس قرار دیا جا رہا ہے۔