اسرائیل صرف ایران ہی کے نہیں بلکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بھی خلاف ہے۔ تل ابیب علاقے میں کسی عرب یا اسلامی ملک کو نیوکلئیر طاقت بنتا نہیں دیکھ سکتا۔
ان خیالات کا اظہار اسرائیلی امور کے نامور تجزیہ کار تحسین الحلبی نے شامی روزنامے “الوطن” میں شائع ہونے والے ایک کالم میں کیا ہے۔ جناب تحسین کے گذشتہ روز شائع ہونے والے کالم میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کا سیکیورٹی نظریہ دو جغرافیائی حقیقتوں کا قائل ہے۔ پہلی حقیقت فلسطین کے اردگرد واقع عرب ممالک ہیں۔ اسرائیل کو لاحق سیکیورٹی تشویش کا دوسرا دائرہ عرب ملکوں کے ایران، پاکستان اور ترکی جیسے ہمسایہ ممالک ہیں۔
مسٹرالحلبی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی مصلحت کا تقاضہ ہے کہ یہ ممالک کسی طرح اسرائیل کے مقابلے میں طاقتور نہ ہو جائیں مبادی خطے میں طاقت کا توازن عربوں یا مسلمانوں کے حق میں ہو جائے۔ انہوں نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اسرائیل کے جاسوسی ادارے پاکستان میں داخلی انتشار کو ہوا دے رہے ہوں۔ پاکستان کو درپیش مسائل کا فائدہ اٹھا کر اسرائیل ملک میں ناراض عناصر کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے آلہ کار بنا سکتا ہے۔
انہی خیالات کا اظہار گورڈن ڈف نے”اوبنیون میکر” ویب پورٹلز میں شائع ہونے والے اپنے ایک تبصرے میں کیا ہے۔ “کوئٹہ دھماکے میں اسرائیلی ہاتھ” کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں مسٹر گورڈن لکھتا ہے کہ کوئٹہ میں یوم القدس کی ریلی کو اسرائیل کے علاوہ کوئی دوسرا حلقہ نشانہ نہیں بنا سکتا کیونکہ یہ ریلی اہل پاکستان کی جانب سے القدس اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے نکالی گئی تھی۔ اس میں افغانی یا طالبان کا ملوث ہونا خارج از امکان ہے کیونکہ ان حلقوں نے ہمیشہ مسئلہ فلسطین کی حمایت کی ہے۔ نہ ہی پاکستان میں سرگرم کوئی داخلی گروپ اس ریلی کو نشانہ بنا سکتا ہے کیونکہ پاکستانی من حیث القوم ہمشیہ فلسطینیوں اور القدس کی یہودی تسلط سے آزادی کے پرچار کرہے ہیں۔
مقالہ نگار مزید لکھتا ہے کہ امریکی رضامندی کے بعد بھارت سے اسرائیل کے بڑھتے ہوئے فوجی اور ٹکنالوجی کے میدان میں تعاون کے بعد یہ بات اسرائیل کے لئے بہت زیادہ اہم ہے کہ وہ پاکستان کو داخلی انتشار کا شکار کرے۔
مسٹر ڈف نے پاکستان کی انٹر سروسسز انٹیلی جنس [آئی ایس آئی] کے سابق سربراہ لیفٹننٹ جنرل حمید گل سے لئے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے اپنے مضمون میں مزید کہا ہے کہ جنرل گل نے انہیں بتایا کہ امریکا اور اسرائیل دونوں ملکر پاکستان کو درپیش مسائل کا بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ امریکا میں صہیونی لابی اب بھی پالیسی سازی کے معاملات میں اپنا اثر و نفوذ استعمال کرتے ہوئے اوباما انتظامیہ کو یہ ڈکٹیٹ کرا رہی ہے کہ پاکستان کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہئے۔