اسرائیلی وزارت تعلیم نے مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے دوران اسرائیل کے قبضے میں جانے والے علاقوں میں قائم سرکاری اور غیرسرکاری اسکولوں کے نصاب کو تبدیل کر کے اسے صہیونی اور یہودی نظریات کے مطابق تریب دینے کا فیصلہ کیا ہے. دوسری جانب فلسطینی اور عرب شہریوں نے اسرائیل کے اس فیصلے کو نصاب کو یہودیانے کے سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے. مرکز اطلاعات فلسطین کے مطابق حال ہی میں اسرائیلی وزیر تعلیم جدعون ساعر نے محکمہ تعلیم کے اعلیٰ کے اجلاس میں میٹرک تک کے سرکاری اور غیرسرکاری اسکولوں میں یکساں نظام تعلیم رائج کرنے اور نصاب کو صہیونی اور یہودی نظریات کے مطابق ترتیب دینے کی تجویز کی منظوری دی.اجلاس میں کہا گیا کہ تمام اسکولوں میں یکساں نظام تعلیم اور نصاب سے نہ صرف امتحانات کے مراحل میں آسانی ہو گی بلکہ اس سے اساتذہ اور دیگر تعلیمی عملے کو بھی سہولت فراہم کی جائے گی. دوسری جانب فلسطینی اور عرب شہریوں کی طرف سے اسرائیلی محکمہ تعلیم کے اس نئے فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا گیا ہے. فلسطینی شہریوں نے نصاب کو یہودیت اور صہیونیت میں تبدیل کرنے کو فلسطینی نوجوان نسل کے خلاف اسرائیل کی سازش قرار دیتے ہوئے صہیونی وزیرتعلیم جدعون ساعر سے فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے. فیصلے کے مخالفین کا موقف ہے کہ اسرائیل اس طرح کے اقدامات سے صہیونی نظریات کو فلسطین کی نئی نسل پر مسلط کرنا چاہتا تاہم اسرائیل کی اس سازش کو کسی صورت میں بھی قبول نہیں کیا جائے گا.اسرائیلی فیصلے کے بعد مقبوضہ فلسطین کے کئی شہروں میں قائم اسکولوں اور جامعات میں فیصلے کے خلاف طلبہ اور عام شہریوں نے احتجاجی مظاہرے بھی کئے ہیں. ادھرحیفا یونیورسٹی میں لیکچرر ایمن اغباریہ نے اسرائیلی وزارت تعلیم کے اس اقدام کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے. ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل دانستہ طور پر فلسطینی بچوں پر یہودی اور صہیونی نظریات مسلط کر کے انہیں تباہ کرنا چاہتا ہے. فلسطینی ریسرچر اور سوشل اسٹڈی کے استاد خالد ابوعصبہ نے عرب نشریاتی اداتے”الجزیرہ نٹ” سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “نصاب تعلیم کی تبدیلی کا اصل محرک اسرائیلی حکومت میں دائیں بازو کے انتہا پسند عناصر ہیں. ان کی کوشش ہے کہ وہ فلسطینیوں کی آئندہ نسلوں کو صہیونی اور یہودی نظریات اور تعلیم کے ذریعے تبدیل کر دیں تاکہ ان میں اور یہودیوں کے بچوں کے درمیان نظریاتی طور پرکوئی فرق باقی نہ رہے”ایک سوال کے جواب میں خالد ابوعصبہ کا کہنا تھا کہ خود یہودیوں کے اپنے 50 فیصد بچوں کے نظریات جدید صہیونی نظریات کے برعکس ہیں، اسرائیل کو یہودیوں کو صہیونی رنگ میں بدلنے کے لیے الگ سے چیلنج درپیش ہے. فلسطینی ماہر تعلیم کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی نصاب کے ذریعے فلسطینی بچوں کے ذہن سازی کی یہ سازش بھی ماضی کی سازشوں کی طرح ناکامی سے دو چار ہو گی، کیونکہ جدعون ساعر کا فیصلہ اس نوعیت کی پہلی کوشش نہیں،بلکہ ماٰضی میں بھی اس طرح کی بے شمار کوششیں کی جا چکی ہیں، لیکن اسرائیل ان تمام تر کوششوں کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا.