روسی وزیردفاع اناٹولی سیرڈیوکوف نے بتایا ہے کہ روس نے اسرائیل سے حال ہی میں 12 ڈرون طیارے خرید لیے ہیں جبکہ ان طیاروں کو آپریٹ کرنے کے لیے 50 فوجیوں کو تربیت کے لیے تل ابیب روانہ کیا گیا ہے. روسی وزیرفاع نے پیر کے روز ماسکو میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں بتایا کہ ماسکواور تل ابیب کے درمیان دفاعی تعاون کے کئی معاہدے پہلے سے قائم ہیں. بغیر پائلٹ کے ڈرون طیاروں کی خریداری کا معاہدہ حال ہی میں اسرائیلی وزیردفاع ایہود باراک کے ساتھ پانچ سال کے لیے دو طرفہ دفاعی تعاون کےضمن میں طے پایا تھا. معاہدے کے بعد روس نے اسرائیل سے ایک درجن ڈرون طیارے خریدے ہیں، اور انہیں استعمال کرنے کے لیے جدید فنی مہارت کے حصول کی ضرورت کے تحت 50 ماہرین کا ایک وفد تل ابیب میں تربیت حاصل کر رہا ہے.ایک سوال کے جواب میں روسی وزیردفاع کا کہنا تھا کہ روس کو اسرائیل کے جدید ترین جنگی صلاحیت اور مہارتوں سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہے اور روس اس ضمن میں اسرائیل کو نہایت اہمیت کا حامل سمجھتا ہے. دوسری جانب اسرائیلی وزیردفاع ایہود باراک کا کہنا تھا کہ ان کا ملک روس کو دفاعی اعتبارسے ایک اہم اتحادی کے طور پر دیکھ رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دونوں ملک ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کر رہے ہیں. نیز مشرق وسطیٰ میں روس کا کلیدی کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا. انہوں نے کہا کہ دونوں ملک دفاع کے شعبے میں ایک باہمی تعاون کا سلسلہ جاری رکھیں گے.دوسری جانب ماسکو میں قائم اسلحہ کی عالمی تجارت کے تجزیاتی مرکز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ روس نے اسرائیل سے جدید ترین لڑاکا اور جاسوس طیاروں کے حصول کے دو الگ الگ معاہدے کئے ہیں جن پر10 کروڑ ڈالر کی لاگت آئے گی. پہلے معاہدےکے تحت ماسکو نے تل ابیب سے 12 ڈرون طیارے حاصل کیے ہیں جبکہ رواں سال کے آخیر تک روس اسرائیل سے مزید 36 چھوٹے لڑاکا طیارے بھی حاصل کر لے گا.ادھر روس میں قائم “رشین جیوپولیٹیکل ایشوز” کے نام سے قائم ریسرچ سینٹر کے چیئرمین لیونڈ ایفاشوف کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ دفاعی تعاون کا فروغ اسرائیل کی مجبوری ہے کیونکہ اسرائیل کو ایران اور شام کے روس کے ساتھ بڑھتے فوجی تعاون پر گہری تشویش ہے. یہی وجہ ہے کہ اسرائیل روس کے شام اور ایران کے ساتھ فروغ پذیر فوجی تعاون کو کم سے کم کرنے کے لیےکوشاں ہے. خیال رہےکہ ایفاشوف روسی وزارت دفاع کے خارجہ تعلقات کے چیئرمین بھی رہ چکے ہیں.انکا مزید کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں دو مسلمان ملکوں شام اور ایران کے ماسکو کے ساتھ بڑھتے فوجی تعاون پراسرائیلی حلقوں میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے. ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ ماسکو اور دمشق کے درمیان شام کو”یاخونت” نامی میزائلو کی فراہمی روک دے تاہم ابھی تک اسرائیل روس کو شام یا ایران میں کسی ایک یا دونوں کے ساتھ فوجی تعاون کو کم کرنے پرقائل نہیں کر سکا.