لبنان میں فلسطین اور عرب ممالک کی سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے فلسطینی اتھارٹی کے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی مخالفت کی ہے. عرب جماعتوں کا کہنا ہےکہ اسرائیل سے ماضی میں ہونے والے مذاکرات بھی بے نتیجہ ثابت ہوئے ہیں اور موجودہ حالات میں بھی کسی قسم کی پیش رفت کی توقع نہیں. بیروت میں جمعہ کےروز مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کی کانفرنس میں عرب لیگ کے اسرائیل سے مذاکرات کی حمایت کے فیصلے کی شدید مخالفت کی گئی. کانفرنس کے مقررین کا کہنا تھا کہ پچھلے کئی سال سے اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں کے درمیان براہ راست اور بالواسطہ مذاکرات ہوتے رہے ہیں،لیکن اسرائیل نے ہمیشہ مذاکرات کی اڑ میں اپنے ظالمانہ اقدامات کو مزید آگے بڑھانے کے لئے موقع حاصل کرنے کی کوشش کی. عملی طور پر فلسطینی عوام یا عرب ممالک کو ان مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوا. کانفرنس کے اختتام پر شرکا کی جانب سے جاری ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ مسئلہ فلسطین کا پائیدار حل فلسطینی عوام کی مسلح مزاحمت میں مضمر ہے لہذا تمام عرب ممالک اسرائیل سے بے سود مذاکرات کی حمایت کے بجائے فلسطینی مزاحمتی تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے اقدامات کریں. عرب قومی کانفرنس نے فتح اور حماس سمیت تمام فلسطینی جماعتوں پر زوردیا کہ وہ باہمی اختلافات بھلا کر مفاہمت کو یقینی بنائیں تاکہ اسرائیل کے خلاف کوئی مشترکہ حکمت عملی اپنائی جا سکے. اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطین میں ریاستی دہشت گردی کے ارتکاب پر اس کے جنگی جرائم کی پردہ پوشی کے بجائے اسرائیل کوعالمی سطح پر تنہا کرنے، صہیونی سیاسی اور فوجی حکام کے خلاف عالمی عدالتوں میں مقدمات قائم کرنے اور اسرائیل کی ہر سطح پر بائیکاٹ کی ضرورت ہے تاکہ اسرائیل فلسطینی اور عربوں کے سلب شدہ حقوق واپس کرنے پرمجبور ہو سکے. بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیل نے غزہ کی معاشی ناکہ بندی کرکے جنوبی افریقا میں نسلی امتیاز پر مبنی رویے کی یاد تازہ کر دی ہے. اس کا بدلہ اور مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کا عالمی سطح پر بائیکاٹ کیا جائے. اعلامیے میں امریکی نگرانی میں ہونے والے فلسطینی اتھارٹی اوراسرائیلی مذاکرات کےبارے میں کہا گیا کہ موجودہ مذکرات کا انجام بھی وہی ہو گا جو اس سے قبل اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان ہونے والے معاہدوں کا ہو چکا ہے. اسرائیل مذاکرات کے ذریعے فلسطینی قیادت پر فلسطینیوں کے بنیادی حقوق سے دستبردار ہونے کے لیے دباٶ ڈال رہے جبکہ اسے فلسطینی مقبوضہ علاقوں سے دستبردار کرنے کے لیے مجبور کرنے کی ضرورت ہے.