انتہائی باخبر فلسطینی ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کی بحالی کا فیصلہ متفقہ نہیں بلکہ صرف محمود عباس اور ان کی جماعت کا انفرادی فیصلہ ہے۔ فیصلے کے وقت کل اٹھارہ اراکین میں سے صرف نو کی حاضری کے بعد یہ فیصلہ اپنا قانونی نصاب پورا نہیں کر رہا۔ اخبار ’’القدس العربی‘‘ کے مطابق اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی حمایت کے لیے بلائے گئے اس اجلاس میں تنظیم کی ایگزیکٹو کمیٹی کے اکثر اراکین نے شرکت نہیں کی، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجلاس براہ راست مذاکرات کی حمایت یا انکار کے لیے نہیں بلایا گیا۔ ذرائع نے کہا کہ کمیٹی کے بہت سے معروف اور انتہائی اہم اراکین نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ مذاکرات کی کمیٹی کے سابقہ سربراہ احمد قریع کے علاوہ حنان عشراوی، غسان شکعہ، اسعد عبد الرحمن اور عرب لبریشن فرنٹ کے ترجمان محمود اسماعیل نے اجلاس میں شرکت نہیں کی، اسی طرح غزہ سے ایگزیکٹو کمیٹی کے اراکین زکریا اغا اور ریاض خضری اسی طرح فاروق قدومی اور محمد نشاشیبی بھی اجلاس میں موجود نہ تھے۔ اجلاس میں شریک پی ایل او کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ایک رکن حنا عمیرہ نے کہا کہ اجلاس میں حاضر ہونے اراکین کی تعداد صرف نو تھی۔ جبکہ ایگزیکٹو کمیٹی کے کسی بھی اجلاس کے لیے ضروری ہے کہ کل اٹھارہ اراکین میں سے کم از کم بارہ اراکین حاضر ہوں لہذا کورم پورا نہ ہونے کے سبب یہ اجلاس درست نہیں تھا۔ اخبار نے کہا کہ یہ اجلاس اسرائیل کے ساتھ نئے براہ راست مذاکرات پر غور و خوض کے لیے بلایا ہی نہیں گیا تھا۔ واضح رہے کہ امریکا کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پچھلے جمعے کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل اور محمود عباس کی حکومت کے مابین اٹھارہ ماہ بعد ایک فلسطینی خود مختار ریاست کے قیام کے لیے مذاکرات ہونگے