فلسطینی مجلس قانون ساز کے رکن اور فلسطینی علماء رابطہ کمیٹی کے سربراہ شیخ حامد بیتاوی نے کہا ہے کہ کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں فتح حکومت کی جانب بسے مساجد پر جنگ تاحال جاری ہے۔ بیتاوی کی جانب سے ذرائع ابلاغ کو جاری کیے گئے بیان میں، جس کی ایک کاپی ’’مرکز اطلاعات فلسطین‘‘ کو بھی موصول ہوئی، کہا گیا ہے کہ مغربی کنارے میں ایک ہزار سے زائد مساجد میں موذن یا امام مسجد موجود نہیں جس کی وجہ وزارت اوقاف کی جانب سے بھرتیوں میں بلاوجہ التوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فتح حکام اللہ کے گھروں کی بھرتیوں میں انتہائی بخل سے کام لے رہے ہیں، رام اللہ حکومت ان مساجد کو اپنے اصلی پیغام سے جدا کرنے کے لیے ان مساجد کے اندر موجود عملے کی بھی بھرپور نگرانی کر رہی ہے۔ خود کو خطبہ جمعہ سے روکنے کے فیصلے پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے شیخ بیتاوی نے کہا کہ رام اللہ حکومت کا یہ فیصلہ سربراہی سطح پر انتہائی سیاسی اور جماعتی فیصلہ ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا ایسا پہلا فیصلہ نہیں بلکہ اس سے قبل سابقہ وزیر اوقاف کمال بواطنہ کو بھی مساجد میں خطابت سے روکا گیا تھا۔
محکمہ اوقاف کے ظالمانہ نوٹس شیخ بیتاوی نے رام اللہ حکومت کی جانب سے وزارت اوقاف کی سرکلرز کے ذریعے مساجد کے خلاف جاری کیے جانے والے غیر شرعی اور ناجائز نوٹسسز کے بارے میں آگاہ کیا، انہوں نے کہا کہ ھباش اور اس سے قبل بواطنہ کی سربراہی میں غزہ کی جنگ کے دوران خطباء کو جنگ کے بارے میں بات کرنے سے روکنے کا سرکلر جاری کیا گیا۔ دیگر حالات جیسے شیخ یوسف قرضاوی پر حملہ کر کے زخمی کرنے کی دوران بھی خطباء پر پابندی عائد کی گئی، اسی طرح کو کسی خاص موضوع پر بات کرنے پر مجبور کیا جانا فتح حکومت کی جانب سے انتہائی کم ظرفی کا ثبوت ہے۔ بیتاوی نے کہا کہ درجنوں خطباء کو مساجد میں خطبہ دینے سے روک دیا گیا ہے، بیسیوں خطیبوں کو عباس ملیشیا نے اغوا کرکے شدید تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ انہیں انتہائی دردناک تفتیشی مراحل سے گزارا گیا ہے۔ ان ماہر خطیبوں کی جگہ ایسے لوگوں کو تعینات کیا گیا جن اس میدان کے سوار ہی نہیں، اس کے علاوہ مغربی کنارے کی اوقاف نے محکمہ زکواۃ کے تحت چلنے والے سیکڑوں حفظ القرآٰن کے مدارس کو بند کر دیا ہے۔ اس موقع پر بیتاوی نے نئی مساجد بنانے کے لیے اپنائے جانے والے طریقے پر بھی شدید تنقید کی، انہوں نے کہا کہ پہلے نئی مسجد کی تعمیر کے لیے ضلع کے منتظم کی اجازت کافی ہوتی تھی مگر اب اگر نئی مسجد بنانا ہو تو اس کے لیے مسجد کی تعمیراتی کمیٹی کے اراکین کے علاوہ سیکیورٹی حکام کی رضامندی بھی ضروری قرار دے دی گئی ہے۔ جس کی وجہ سے کسی بھی مسجد کی تعمیر کی اجازت کے حصول کے لیے ایک لمبا عرصہ درکار ہوتا ہے۔ امریکا کی صہیونی شرائط کے خلاف سرتسلیم خم بیتاوی نے کہا کہ رام اللہ حکام نے امریکا کی جانب سے فلسطینی معاشرے میں فحاشی اور برائیاں پھیلانے کی صہیونی شرائط کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔ امریکی احکامات کے مطابق علاقے میں شراب خانے کھولے جا رہے ہیں اور حفظ القرآن کے مدرسے بند کیے جارہے ہیں، خطیبوں کی بڑی تعداد کو مساجد میں خطبہ دینے سے روک دیا گیا ہے۔ اپنے بیان کے آخر میں بیتاوی نے کہا کہ پہلا اور دوسرا انتفاضہ مذہبی محرکات پر لڑے گئے تھے جس میں بڑے پیمانے پر شہادتیں ہوئیں، اس انتفاضے کی بنیادی چنگاری دین ہی تھا، یہ ہی وجہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا نے رام اللہ حکومت سے مساجد کے منبر سے انتفاضہ میں شرکت کی دی جانے والی ترغیب کو روکنے کا حکم جاری کیا ہے جس پر فتح حکومت پوری طرح عمل کر رہی ہے۔ اس بات کا اعتراف فلسطین کے غیر آئینی صدر محمود عباس اپنے ایک بیان میں کر بھی چکے ہیں، ذرائع ابلاغ کو دیے گئے اپنے بیان میں عباس نے کہا تھا کہ ہم نے مساجد کے منبروں سے دی جانے والی ترغیب کو روک دیا ہے۔