“مأمن الله” کا تاریخی قبرستان، القدس کے قدیمی شہر کے مغرب میں واقع ہے. باب الخلیل سے چند سو میٹر کی دوری پر واقع “مأمن الله” بیت المقدس کا سب سے پرانا اور بڑا قبرستان ہے. ایک اندازے کے مطابق اس کا رقبہ دو سو ایکٹر پر محیط ہے جہاں سنہ 636ء میں ہونے اسلامی فتوحات کے وقت شہید ہونے والے صحابہ اور مجاہدین اسودہ خاک ہیں.القدس پر صلیبیوں کے قبضے کے وقت انہوں نے یہاں بڑے پیمانے پر قتل عام کرایا. “مأمن الله” میں مدفون شہداء کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 70,000 شہید ہے. سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب القدس کو صلیبی قبضے سے آزاد کرایا تو انہوں نے صلیبیوں سے جنگ میں شہید ہونے والے افراد کو اسی قبرستان میں سپرد خاک کرنے کا حکم دیا. اس کے بعد ابتک “مأمن الله” میں علماء، ادیبوں اور القدس کے فرمانرواوں کی قیادت کی یہاں تدفین کا سلسلہ جاری ہے.سنہ 1948ء میں اسرائیلی فوج نے القدس کے مغربی حصے پر قبضہ کر لیا. اسی مغربی علاقے میں “مأمن الله” کا قبرستان بھی واقع ہے. اس وقت سے لیکر ابتک اسرائیلی “مأمن الله” قبرستان کی اسلامی شناخت مٹانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں. اب “مأمن الله” میں صرف پانچ فیصد قبریں باقی رہ گئی ہیں اور قبرستان کا رقبہ بھی دو سو ایکٹر سے گھٹ کر 25 ایکٹر رہ گیا ہے.القدس شہر کی اسرائیلی بلدیہ نے “مأمن الله” قبرستان کے بڑے رقبے کو پبلک پارک بنا دیا ہے. اس کا نام “آزادی پارک” رکھ دیا گیا ہے. صہیونی حکام نے قبروں کو بلڈوز کیا جس کے بعد وزارت مواصلات نے یہاں کار پارکنگ کے لئے جگہ بنا دی. اس کے بعد علاقے میں صحت و صفائی کے منصوبوں کی تکمیل کی خاطر مزید کھدائی کی گئی. پارکنگ کی جگہ میں توسیع کے لئے دسیوں مزید قبروں کو منہدم کر دیا گیا.سنہ 2005ء میں مأمن الله قبرستان میں “رواداری میوزیم” تعمیر کے لئے ابتدائی کام شروع کیا گیا. سنہ 2008ء میں اسرائیلی سپریم کورٹ نے میوزیم بنانے کی اجازت دیدی. چند ہفتے قبل “مأمن الله” قبرستان کے ایک حصے پر اسرائیلی عدالتی کمپلیکس کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے.حالیہ چند برسوں کے دوران اسرائیلی بلدیہ نے باقی ماندہ قبرستان میں لکڑیاں کاٹ کر ڈالنا شروع کر رکھیں ہیں، جس کے باعث بہت سی قبروں کو وقت گزرنے کے ساتھ نقصان پہنچا ہے.