اسیران کی مدد کی قومی کمیٹی نے کہا ہے کہ اسرائیل نے اب تک غزہ کی پٹی سے گرفتار سات فلسطینی اسیران کو ’’غیر قانوی جنگجو‘‘ نامی قانون کے تحت زیر حراست رکھا ہوا ہے، اسی قانون کے تحت گرفتار 48 سالہ ڈاکٹر حمدان عبداللہ صوفی کی رہائی کے بعد دیگر اسیران کی حراست کا جواز نہیں رہا۔ کمیٹی کے دفتر اطلاعات کے ڈائریکٹر ریاض اشقر نے واضح کیا کہ قیدی صوفی کی رہائی کے ساتھ ہی غیر قانونی قاتل قرار دیے جانے والے قیدیوں کی تعداد کم ہو کر سات رہی گئی ہے، ان سب کا تعلق غزہ کی پٹی سے ہے، اور ان میں س اکثر نے اسرائیلی جیلوں میں اپنی سزا پوری کر لی ہے۔ اسرائیل نے 2005ء دسمبر میں غزہ جنگ کے بعد اس قانون کا نفاذ کیا جس کا مقصد عالمی قوانین کی آنکھوں میں دھول جھونکنا تھا، جنیوا معاہدے کی صورت میں عالمی قوانین کے مطابق تمام حقوق ان فلسطینی اسیران کو بھی حاصل ہیں لیکن اسرائیل نے عالمی قوانین کے خلاف متعصبانہ قانون بنایا جس کے تحت اسرائیل کسی بھی الزام اور عدالتی ٹرائل کے بغیر بھی فلسطینیوں کو حراست میں رکھ سکتا ہے۔ قومی کمیٹی برائے نصرت اسیران نے دنیا بھر کے ممالک سے اس معاملے میں مداخلت کر کے اسرائیل کو ایسے ظالمانہ قوانین کو ختم کرنے پر مجبور کرنے کا مطالبہ کیا جس کے تحت ایک ہی الزام پر ملزم کا دو مرتبہ عدالتی ٹرائل کیا جاتا ہے اور مدت سزا ختم ہونے کے بعد بھی ملزم کو حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔