اسلامی تحریک مزاحمت. حماس. نے فلسطینی صدرمحمود عباس کی جماعت الفتح کی ایگزیکٹو کمیٹی کی طرف سے صدر کو اسرائیل کے ساتھ براہ راست بات چیت کی اجازت دینے کی شدید مذمت کی ہے. حماس کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل سے براہ راست مذاکرات شروع کرنے کی اجازت دینا غزہ پرحملے، یہودیت کے فروغ اور بیت المقدس میں فلسطینیوں کے خلاف صہیونی مظالم کو جائز قرار دینا ہے. پیر کے روز حماس کے راہنما عزت رشق نے دمشق میں عرب نیوز ایجنسی”قدس پریس” کو ایک انٹرویو میں کہا کہ ” وہ سمجھتے ہیں کی فتح کی ایگزیکٹو کمیٹی نے محمود عباس کو اسرائیل سے مذاکرات کا مینڈیٹ نہیں دیا بلکہ اسرائیل کے غزہ کی پٹی پر دوبارہ حملے کی راہ ہموار کی ہے. ان مذاکرات کا فلسطینی عوام کو قطعی طور پر کوئی فائدہ نہیں بلکہ مذاکرات کی آڑ میں اسرائیل بیت المقدس میں یہودی آباد کاری کے فروغ کے ساتھ ساتھ اپنے مظالم میں اضافہ کرے گا اور محمود عباس کے مذاکرات ان مظالم پر پردہ ڈالنے کا سبب بنیں گے”. ایک سوال کے جواب میں عزت رشق نے کہا کہ فتح کی ایگزیکٹو کمیٹی، محمود عباس اور فلسطینی اتھارٹی کا فلسطینی قوم کے مفادات سے کوئی تعلق نہیں.وہ اسرائیل کو بچانے کےلیے فلسطینیوں پر امریکی ایجنڈا مسلط کرنا چاہتے ہیں. انہوں نے مزید کہا کہ فتح کی ایگزیکٹو کونسل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں. اس کے فیصلوں کا فلسطینی عوام پر اطلاق نہیں ہوتا. صہیونی ریاست کے ساتھ براہ راست بات چیت کی موجودہ رٹ امریکی دباٶ کا نتیجہ ہے. محمود عباس یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل سے مذاکرات شروع نہ کیے تو امریکی امداد سے محروم ہو جائیں گے. حماس ایسی امداد کو فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے زہر قاتل سمجھتی ہے. کیونکہ یہ مذاکرات فلسطینی عوام کے حقوق کو سلب کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں. عزت رشق نے مزید کہا کہ غزہ کی معاشی ناکہ بندی اور فریڈم فلوٹیلا پر حملے کے بعد اسرائیل کو پوری دنیا میں بدنامی کا سامنا ہے. محمود عباس مذاکرات کے ذریعے نیتن یاھو کی اس پریشانی کو دور کرنا چاہتے ہیں اور انہیں موجودہ عالمی بحران سے نکالنے میں مدد کر رہے ہیں.