مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
چودہ دسمبر سنہ 1987ء کو فلسطینی جدوجہد کی تاریخ میں ایک ایسی صبح طلوع ہوئی جس نے مزاحمت کو نئی روح، واضح سمت اور ناقابل شکست ارادہ عطا کیا۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کا یوم تاسیس محض ایک تنظیمی آغاز نہیں تھا بلکہ یہ اس عہد کا اعلان تھا کہ فلسطینی قوم اب قابض صہیونی ریاست کے ناجائز قبضے، جبر، سفاکیت اور نسل کشی کے سامنے خاموش نہیں رہے گی۔
حماس کے”یوم تاسیس” کے بعد اڑتیس برس فلسطینی عوام کی قربانیوں، استقامت اور مسلسل جدوجہد کی روشن داستان ہیں۔ یہ وہ برس ہیں جن میں گرفتاریوں کی زنجیریں ٹوٹیں، جلا وطنی کو وقار میں بدلا گیا، محاصرے کو عزم سے شکست دی گئی اور شہداء کے لہو سے آزادی کا راستہ روشن کیا گیا۔ حماس نے ابتدا ہی سے یہ واضح کر دیا کہ مزاحمت وقتی ردعمل نہیں بلکہ ایک شعوری، نظریاتی اور قومی فریضہ ہے۔
یہ تحریک ایسے وقت میں ابھری جب فلسطینی زمینیں نگلی جا رہی تھیں، گھروں کو ملبے میں بدلا جا رہا تھا اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی تھیں۔ ایسے اندھیروں میں حماس امید کی وہ شمع بنی جس نے نہ صرف مزاحمت کو منظم کیا بلکہ فلسطینی قوم کو اس کی اصل طاقت سے روشناس کرایا۔ یوم تاسیس کے ساتھ ہی فلسطینی جدوجہد کو ایک جامع عنوان، ایک متحد آواز اور ایک ناقابل جھکنے والا ارادہ میسر آیا۔
اڑتیس برسوں کے اس سفر میں آزمائشیں قدم قدم پر منتظر رہیں۔ قابض اسرائیل نے گرفتاریوں، جلا وطنی، قتل کی پالیسی اور تباہ کن جنگوں کے ذریعے اس تحریک کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر ہر وار الٹا اسی کے خلاف گیا۔ مرج الزہور کی جلا وطنی، شدید سردی اور وسائل کی کمی کے باوجود فلسطینی مزاحمت کے عزم کو کمزور نہ کر سکی بلکہ وہ مقام دنیا بھر میں فلسطینی قضیہ کی گونج بن گیا۔
فلسطینی قیادت نشانے پر
قابض دشمن نے قیادت کو نشانہ بنایا۔ وہ سمجھتا تھا کہ رہنماؤں کی شہادت سے تحریک بکھر جائے گی، مگر شہید شیخ احمد یاسین، شہید عبدالعزیز الرنتیسی اور دیگر قائدین کے خون نے تحریک کو مزید مضبوط کر دیا۔ ہر شہادت ایک نئے حوصلے میں ڈھلی، ہر قربانی نے مزاحمت کو نئی زندگی بخشی۔
جب فلسطینی عوام نے اعتماد کا اظہار کیا اور انتخابی عمل کے ذریعے حماس کو قیادت سونپی تو دنیا نے دیکھا کہ یہ تحریک صرف مزاحمت ہی نہیں بلکہ ذمہ دار حکمرانی کی بھی اہل ہے۔ شدید محاصرے، بھوک، دباؤ اور سازشوں کے باوجود استقامت نے شکست قبول نہ کی اور مزاحمت کا چراغ روشن رہا۔
سیاسی اور عسکری میدان میں کامیابیاں
القسام بریگیڈز نے میدان میں یہ ثابت کیا کہ طاقت کا توازن صرف ہتھیاروں سے نہیں بلکہ ایمان، تنظیم اور مقصد سے بدلتا ہے۔ صہیونی فوجیوں کی گرفتاری اور فلسطینی اسیران کی رہائی نے دشمن کے غرور کو خاک میں ملا دیا اور مظلوم قوم کے دلوں میں امید کی نئی لہر دوڑا دی۔
غزہ پر مسلط کی گئی جنگیں ایک کے بعد ایک، اس خیال پر مبنی تھیں کہ مزاحمت کو کچل دیا جائے گا، مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی۔ معرکہ الفرقان، حجارہ السجیل، العصف المأکول، سیف القدس اور پھر معرکہ طوفان الاقصیٰ نے یہ ثابت کر دیا کہ فلسطینی مزاحمت نہ صرف زندہ ہے بلکہ ہر مرحلے پر پہلے سے زیادہ مضبوط ہو کر ابھرتی ہے۔
طوفان الاقصیٰ
معرکہ طوفان الاقصیٰ وہ لمحہ تھا جس نے تاریخ کا رخ بدل دیا۔ بیت المقدس اور مسجد الاقصیٰ کے دفاع میں اٹھنے والی یہ صدا پوری دنیا میں گونج اٹھی۔ اگرچہ اس معرکے میں عظیم قائدین کی شہادتیں ہوئیں، مگر مزاحمت کی قیادت، نظم اور حکمت عملی نے دشمن کو حیران کر دیا۔ یہ پیغام واضح ہو گیا کہ قیادت افراد سے نہیں بلکہ نظریے، اداروں اور عوامی حمایت سے زندہ رہتی ہے۔
آج یوم تاسیس کے اڑتیس برس مکمل ہونے پر حماس محض ایک تحریک نہیں بلکہ فلسطینی قوم کے عزم، صمود اور آزادی کی علامت ہے۔ یہ ایک جاری عہد ہے کہ قربانیوں کی یہ راہ رکے گی نہیں، جدوجہد کمزور نہیں پڑے گی اور شہداء کے خون سے لکھی گئی آزادی کی یہ داستان اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچے گی۔ قابض صہیونی ریاست کا زوال تاریخ کا اٹل وعدہ ہے اور فلسطینی قوم کی آزادی اس وعدے کی روشن تعبیر۔
