مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطینی بچوں کے حقوق کے دفاع سے وابستہ ایک عالمی تنظیم نے تصدیق کی ہے کہ سنہ 2025ء فلسطینی بچوں کی زندگی میں ایک اور تباہ کن سال ثابت ہوا، جہاں نسل کشی، قحط، تشدد، اجتماعی جبری بے دخلی اور جبری گمشدگی کے ساتھ ساتھ قابض اسرائیلی فوج اور صہیونی آبادکاروں کے مسلسل تشدد نے ان کے بچپن کو روند کر رکھ دیا۔
ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل فلسطین نے اپنی جامع رپورٹ میں بتایا کہ اس کے دستاویزی شواہد کے مطابق غزہ پر جاری جنگی یلغار اور مغربی کنارے میں بڑھتے جبر نے فلسطینی بچوں کو منظم انداز میں زندگی، تحفظ، صحت اور بچپن جیسے بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اجتماعی سفاکیت کے ناقابل تردید شواہد کے باوجود عالمی رہنما قابض اسرائیل کو کٹہرے میں لانےسے بچاتے رہے، جس کے باعث فلسطینی بچے کسی بھی تحفظ کے بغیر حالات کی بے رحم موجوں کے حوالے کردیے گئے۔ اسی دوران قابض فوج نے بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا، حراستی مراکز میں تشدد میں اضافہ کیا اور غزہ میں بچوں کو جبری طور پر غائب کرنے جیسے جرائم کا ارتکاب کیا۔
جواب دہی سے مکمل استثنا
تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل خالد قزمار نے کہا کہ قابض اسرائیلی فوج نے سنہ 2025ء کے ہر دن فلسطینی بچوں کو قتل کیا، معذور بنایا، تشدد کا نشانہ بنایا، بھوکا رکھا، اغوا کیا اور بے گھر کیا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ اس پورے سال میں کوئی بھی فلسطینی بچہ ایک لمحے کے لیے بھی خود کو محفوظ محسوس نہ کر سکا۔
قزمار کے مطابق یہ صورت حال دہائیوں سے جاری اس استثنا کا تسلسل ہے جس سے قابض اسرائیلی فوج اور حکام لطف اندوز ہوتے آئے ہیں اور بچوں کے خلاف جرائم پر انہیں کبھی کسی انجام کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں رپورٹ کے مطابق قابض فوج اور صہیونی آبادکاروں نے سنہ 2025ء کے دوران 54 فلسطینی بچوں کو قتل کیا۔ رپورٹ میں اس امر کی بھی نشاندہی کی گئی کہ قابض فورسز غیر قانونی طور پر مغربی کنارے پر قابض آبادکاروں کو مسلسل تحفظ اور پشت پناہی فراہم کرتی رہیں۔
تنظیم کے دستاویزات کے مطابق قابض حکام جون سنہ 2016ء سے اب تک کم از کم 62 فلسطینی بچوں کی لاشیں تحویل میں رکھے ہوئے ہیں، جن میں سے صرف چھ بچوں کی لاشیں اہل خانہ کے حوالے کی گئیں، جبکہ 56 بچوں کی باقیات تاحال قابض اسرائیل کے پاس ہیں۔
غزہ میں بچوں کی بربادی
غزہ میں تنظیم نے واضح کیا کہ سنہ 2025ء کے دوران قتل، معذوری اور پورے فلسطینی خاندانوں کے صفایا کی تباہ کن تباہی کی سطح جارحیت جاری رہی۔ رپورٹ کے مطابق علاج کے لیے غزہ سے باہر منتقل کیے جانے والے چند بچے بھی شدید جسمانی زخموں، گہرے نفسیاتی صدمات اور اپنے مستقبل کے حوالے سے شدید اضطراب کا شکار ہیں۔
رپورٹ میں بعض بچوں کی دردناک کہانیاں بیان کی گئیں اور کہا گیا کہ یہ صرف ان بے شمار دستاویزی کیسز کا ایک معمولی سا حصہ ہیں، جبکہ ہزاروں بچے اب بھی ملبے تلے، خیموں میں، جیلوں میں اور غزہ بھر میں پھیلے جبری نقل مکانی کے مقامات پر لاپتا یا غیر شمار شدہ ہیں۔
بھوک بطور جنگی ہتھیار
تنظیم نے کہا کہ سنہ 2025ء میں قابض اسرائیل کی جانب سے بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بے مثال سطح تک پہنچ گیا۔ غزہ پر مکمل محاصرہ برقرار رکھا گیا، جس کے دوران خوراک، پانی، ادویات، ایندھن اور بجلی کی رسائی کو منظم انداز میں روکا گیا، ساتھ ہی زرعی زمینوں، بیکریوں، ملوں، پانی کے نیٹ ورکس اور ہسپتالوں کو جان بوجھ کر تباہ کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق شیر خوار اور نوزائیدہ بچے سب سے زیادہ خطرے سے دوچار رہے۔
جیلوں میں بچوں کی اذیت ناک حالت
قابض اسرائیلی جیلوں کے بارے میں تنظیم نے بتایا کہ وہاں قید فلسطینی بچے شدید غذائی قلت اور پانی کی کمی کا شکار ہیں۔ سنہ 2025ء میں قابض جیلوں کے اندر پہلے فلسطینی بچے کی شہادت ریکارڈ کی گئی، جو 17 سالہ ولید خالد عبد اللہ احمد تھے، جنہیں مجدو جیل میں جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔
احمد کے جسد خاکی کے پوسٹ مارٹم میں شدید جسمانی کمزوری، چربی اور پٹھوں کی کمی، غیر علاج شدہ سوزش، پانی کی شدید قلت، خارش اور سخت صدمات کے آثار پائے گئے، جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ انہیں مہینوں تک منظم انداز میں بھوکا رکھا گیا اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا۔
تنظیم نے زور دیا کہ غزہ بھر میں اور قابض اسرائیلی جیل نظام کے اندر فلسطینی بچوں کو جان بوجھ کر زندگی کے لیے ضروری وسائل سے محروم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی، جس کا مقصد ان کے جسم توڑنا، امید بجھانا اور فلسطینی زندگی کی بنیادیں مسمار کرنا ہے۔
تنظیم کے مطابق 30 ستمبر سنہ 2025ء تک قابض اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی بچوں کی تعداد 350 تک پہنچ چکی تھی۔
مزید یہ کہ تنظیم نے بتایا کہ سنہ 2025ء کے دوران قابض فورسز نے گرفتاری کے تمام مراحل میں بچوں پر تشدد اور بدسلوکی کی شدت کو غیر معمولی حد تک بڑھا دیا۔ رپورٹ کے مطابق 94 فیصد گرفتار بچوں سے تفتیش خاندان کے کسی فرد کی موجودگی کے بغیر کی گئی اور 89 فیصد بچوں کو گرفتاری کی وجہ تک نہیں بتائی گئی۔
رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ قابض فوج نے غزہ میں بچوں کو خوراک یا انسانی امداد کی تلاش کے دوران اغوا کیا اور انہیں سدی تیمان نامی فوجی حراستی کیمپ منتقل کیا جو جنوبی قابض اسرائیل میں واقع ہے۔ وہاں بچوں کو برہنہ کیا گیا، بھوکا رکھا گیا، مارا پیٹا گیا، پنجرہ نما مقامات میں قید کیا گیا، بجلی کے جھٹکے دیے گئے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا گیا۔ اس کے علاوہ انہیں نام نہاد ڈسکو روم میں رکھا گیا، جہاں گھنٹوں تیز موسیقی چلائی جاتی ہے اور قیدیوں پر اندھا دھند حملے کیے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے اختتام پر کہا گیا کہ سنہ 2025ء کے دوران فلسطینی بچوں میں جبری گمشدگی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا، جسے تنظیم نے ایسے سال کی سب سے سنگین پیش رفت قرار دیا جو مسلسل جواب دہی سے استثنا کی علامت بنا رہا۔
