اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے سیاسی شعبے کے نائب صدرڈاکٹرموسیٰ ابو مروزق نے کہا ہے کہ یہودیوں کا اصل ہدف ہمیشہ مسجد اقصیٰ رہی ہے اور صہیونی یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بیت المقدس ہی وہ اصل مقام ہے جہاں ہیکل سلیمانی موجود ہے، یہی وجہ ہے کہ صہیونی عرصہ دراز سے بیت المقدس پر اپنی توجہ مرکوز کیےہوئے ہیں اور شہر کو یہودیت میں تبدیل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
1967ء سے اب تک قابض یہودی ہیکل سلیمانی کے آثارکی تلاش میں سرگرداں ہیں، انہوں نے مسجد اقصیٰ کی چاروں طرف سے سرنگیں کھود ڈالی ہیں تاہم اب تک وہ ہیکل سلیمانی کی دریافت میں کامیاب نہیں ہوسکے۔
ایرانی اخبار”الوقاف ” کے نامہ نگار مختاربرٹوکوانٹرویو دیتے ہوئے ڈاکٹر موسیٰ مرزوق نے کہا ہے کہ یہودی بیت المقدس میں اپنی عددی اکثریت ثابت کرنے کے لیے ایک جانب یہودی آباد کاری پرتوجہ مرکوزکیے ہوئے ہیں اوردوسری جانب بیت المقدس کے عرب اورمسلمان شہریوں کو بے دخل کیا جا رہا ہے۔
اسرائیلی حکومت کی طرف سے القدس کے شہریوں کے سماجی حقوق کم سے کم کردیے گئے ہیں، مسلمانوں کو بیت المقدس میں آزادی کے ساتھ گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ اور صورت حال یہ ہے کہ یہودی حکومت نے فلسطینی شہریوں کو مسجد اقصیٰ میں نمازوں کی ادآئیگی سے بھی روکا جارہا ہے۔
حماس کے رہنما نے کہا کہ چونکہ یہودی حکام اور یہودی تنظیمیں بیت المقدس میں ہیکل سلیمانی کے وجود سے متعلق شواہد حاصل نہیں کرسکے لہٰذا انہوں نے حرم قدسی میں جبرا یہودیت مسلط کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس سے قبل یہودی اسی قسم کا ایک حربہ الخلیل شہرمیں حرم ابراھیمی کے حوالے سے کیا گیا۔
سابق صہیونی وزیراعظم نے ارئیل شیرون نے یہودیوں کو حرام ابراھیمی میں سیاحوں کے طور پرداخل ہونے کی اجازت دی، بعد ازاں اس کے بیشتر حصے پر قبضہ کرلیا۔ اب وہی کھیل مسجد اقصیٰ کے حوالے سے کھیلا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت بھی یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں جانے کی راہیں فراہم کرکے مسجد اقصیٰ پر مستقل قبضہ کرنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے صرف 1948ء کے مقبوضہ فلسطین کے شہری کی فرنٹ لائن کا کردار ادا کررہےہیں۔ مبارک باد کے مستحق یہ شہری اپنی جان و مال سے مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہیں، وہ دن رات کے زیادہ سے زیادہ اوقات کو قبلہ اول میں گزارنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ اس مقدس مقام کو یہودیوں کے ہاتھوں کسی بھی قسم کے نقصان سے بچا جا سکے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر موسیٰ ابومرزوق نے کہا کہ ہمیں نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ فلسطینی عوام کے خلاف جو سازشیں اسرائیل القدس میں کھیل رہا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے وہی وتیرہ مغربی کنارے میں اپنا رکھا ہے۔
علما کو گرفتار کرکے انہیں وحشیانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، خطبہ اور آئمہ مساجد کے آزادانہ بات چیت اور اظہار رائے پر پابندی ہے، فلاحی اور رفاہی اداروں کو بندکرکے یتیموں اور بیواؤں کی زندگی اجیرن کردی ہے۔ زکات کمیٹیوں کا نظام معطل ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے اس طرح کے اقدامات بہت بڑی غلطی ہیں کیونکہ اس سے اسرائیل کو براہ راست تعاون حاصل ہورہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کی علماء اور مزاحمت کاروں کے خلاف کاررائی یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں حملے جاری رکھنے کی جرات فراہم کر رہی ہے۔
حماس کے ہاں قید گیلاد شالیت کی رہائی کے معاملے پر ایک سوال کےجواب میں انہوں کہا کہ قیدیوں کے تبادلے سے متعلق معاملات میں تھوڑی سی پیش رفت ہوئی ہے تاہم اب تک اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ طور پرہونے والی بات چیت میں اسرائیل ٹال مٹول کا مظاہرہ کرتا رہا ہے۔ القسام بریگیڈ نے گیلاد شالیت کی ویڈیو جاری کرکے اس معاملے کو مزید آگے بڑھانے میں مدد دی ہے تاہم اسرآئیل وقت ضائع کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔
اس کے علاوہ انہوںنے قاہرہ میں جاری فلسطینی جماعتوں کے درمیان مفاہمتی کوششوں پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اب تک مفاہمت کے سلسلےمیں فتح سے مذاکرات کے چھ دور ہو چکے ہیںتاہم بعض معاملات میں فتح کے ساتھ ہم آہنگی نہ ہونے اور فتح کے غیرلچکدار رویے کے باعث معاملات آگے نہیں بڑھ پائے، تاہم رواں ماہ میں کسی حتمی معاہدے کا امکان موجود ہے کیونکہ مصرنے تمام فلسطینی جماعتوں پر زور دیا ہے کہ وہ اختلافات ختم کرکے یکجا ہوجائیں اور مفاہمت کے معاملے کو زیادہ طول نہ دیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ جنگ سے متعلق تیار کردہ گولڈ سٹون رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جانب سے غزہ جنگ کی تحقیقات ایک اچھا اقدام تھا تاہم اس پر بحث میں تاخیر نے اس اقدام کو غیر موثر ثابت کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے گولڈ سٹون کی رپورٹ پربحث کو موخر کرنے سفارش فلسطینی تاریخ کو سیاہ کارنامہ ہے، جسے ہمیشہ افسوسناک پہلو سے دیکھا جائے گا۔