فلسطینی اتھارٹی کے ایک سنیئر عہدیدار نے بتایا ہے کہ امریکی انتظامیہ نے اسرائیل ـ فلسطین امن بات چیت کی بحالی کے لیے تل ابیب سے یہودی بستیوں کی تعمیر رکوانے کے لیے اپنی کوششوں کی ناکامی کا اعتراف کیا ہے. فلسطینی عہدیدار کے مطابق امریکی حکام نے فلسطینی انتظامیہ کو مطلع کیا ہے کہ وہ اسرائیل کو مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں یہودی بستیوں کی تعمیر پر دوبارہ پابندی لگانے پر قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے. فلسطینی عہدیدار نے یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب دوسری جانب اسرائیل نے مقبوضہ بیت المقدس میں قائم “بسغات زئیف” کالونی میں توسیع کے منصوبے پرعمل درآمد کرتےہوئے مزید 625 مکانات کی تعمیر کی منظوری دی ہے. فلسطینی انتظامیہ کے ہیڈ کواٹر رام اللہ میں اتھارٹی کے ایک سنیئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پرفرانسیسی خبررساں ایجنسی “اے ایف پی “سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “امریکا نے انہیں بتایا ہے کہ وہ اسرائیل کو یہودی بسیتوں کی تعمیر رکوانے پر قائل نہیں کر سکے. اس ضمن میں واشنگٹن کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں”. واضح رہے کہ فلسطینی انتظامیہ کے سربراہ محمود عباس اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات کا آغاز اس سال ستمبر میں ہوا، جو اسی ماہ کے آخر میں اس وقت تعطل کا شکار ہو گیا جب اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین کے علاقوں میں قائم یہودی کالونیوں میں مکانات کی تعمیر پر عارضی پابندی میں مزید توسیع سے انکار کر دیا. قبل ازیں فلسطینی صدر محمود عباس نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ امریکا جلد اسرائیل سے یہودی بستیوں کی تعمیر روکنے بارے کوششوں میں ہوئی پیش رفت سے انہیں آگاہ کرے گا. انہوں نے توقع ظاہر کی تھی کی واشنگٹن تل ابیب کو یہودی بستیوں کی متنازعہ تعمیر روکنے پر قائل کر لے گا. ابو مازن نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ یہودی بسیتوں کی تعمیروتوسیع کا عمل جاری رہا تو اس کی خطے میں قیام امن کی کوششوں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے. ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین میں بہ قول ان کے” غیر قانونی “یہودی بستیوں کی تعمیرجاری رکھی تو فلسطینی متبادل ذرائع بھی اختیار کر سکتے ہیں.محمود عباس کے الفاظ میں ” اسرائیل کو مقبوضہ علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیر مہنگی پڑے گی”.