مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
فلسطین میں قائم مزاحمت برائے یہودی آباد کاری نے انکشاف کیا ہے کہ قابض اسرائیلی فوج اور اس کے وحشی آبادکاروں نے مغربی کنارے کے مقبوضہ علاقوں میں زیتون چننے والے فلسطینی کسانوں کے خلاف 340 حملے کیے ہیں جن کے دوران 1200 زیتون کے درخت جڑ سے اکھاڑ پھینکے گئے۔ یہ درخت فلسطینیوں کی محنت اور روزگار کا بنیادی ذریعہ تھے۔
جمعرات کو جاری کردہ ایک بیان میں کمیٹی نے بتایا کہ اس کے عملے نے اکتوبر کے آغاز سے اب تک 62 حملے قابض اسرائیلی فوج کے اور 278 حملے آبادکاروں کے ریکارڈ کیے جو مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں کیے گئے۔
بیان کے مطابق ان حملوں کی نوعیت انتہائی خطرناک اور سفاکانہ رہی۔ ان میں فلسطینی کسانوں پر تشدد، گرفتاری کی کارروائیاں، نقل و حرکت پر پابندیاں، کھیتوں تک رسائی میں رکاوٹیں، خوف و ہراس پھیلانے کے اقدامات اور براہِ راست گولیاں چلانا شامل ہے۔
کمیٹی کے مطابق سب سے زیادہ حملے رام اللہ میں 107 ریکارڈ ہوئے، اس کے بعد نابلس میں 94 اور الخلیل میں 38 حملے کیے گئے۔
کمیٹی فلسطین نے بتایا کہ زیتون سے لبریز فلسطینی زمینوں پر ان صہیونی حملوں کے نتیجے میں اب تک کل 1200 درخت تباہ ہو چکے ہیں۔
ادارے نے موجودہ زیتون کے موسم کو ’’حالیہ دہائیوں کا سب سے مشکل اور خطرناک موسم‘‘ قرار دیا کیونکہ قابض اسرائیلی فوج نے فلسطینی کھیتوں کو ’’بند فوجی علاقے‘‘ قرار دے کر کسانوں کو اپنے کھیتوں میں جانے سے روک دیا۔
بیان میں کہا گیا کہ قابض فوج اور آبادکاروں کے ہاتھوں 92 فلسطینی کسانوں کو حرکت کی پابندیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا جب کہ 59 کسانوں پر براہِ راست حملے کیے گئے۔
زیتون کا موسم فلسطین کی زرعی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہزاروں فلسطینی خاندانوں کی روزی روٹی اسی پر منحصر ہے۔
فلسطینی وزارتِ زراعت کی رپورٹ کے مطابق رواں موسم گزشتہ کئی دہائیوں کے کمزور ترین زیتون کے موسموں میں شمار ہوتا ہے۔ زمینی اندازوں کے مطابق اس سال پیداوار معمول کے صرف 15 فیصد تک محدود رہی۔
وزارت کے اعداد و شمار کے مطابق سنہ2024ء میں فلسطین میں زیتون کے تیل کی پیداوار 27 ہزار 300 ٹن رہی۔
کمیٹی نے بتایا کہ قابض اسرائیلی فوج اور اس کے آبادکاروں کے حملوں میں رواں اکتوبر کے دوران تشویشناک اضافہ ہوا ہے کیونکہ ہر سال اکتوبر کے دوسرے عشرے میں شروع ہونے والا زیتون چننے کا موسم صہیونی جارحیت کا نشانہ بنتا ہے۔ یہ موسم ہزاروں فلسطینیوں کے لیے آمدنی کا بنیادی ذریعہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق صرف اکتوبر میں قابض فوج اور آبادکاروں نے مغربی کنارے میں فلسطینیوں، ان کی املاک اور معاشی ذرائع پر 766 حملے کیے۔
یہ حملے مغربی کنارے میں قابض فوج اور آبادکاروں کی اس وسیع صہیونی مہم کا حصہ ہیں جو گذشتہ دو برسوں میں جاری ہے۔ اس کے نتیجے میں کم از کم 1066 فلسطینی شہید اور تقریباً 10 ہزار زخمی ہوئے جب کہ 20 ہزار سے زائد افراد گرفتار کیے گئے جن میں 1600 بچے بھی شامل ہیں۔
قابض اسرائیل نے 7 اکتوبر سنہ2023ء کو امریکی حمایت سے غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف منظم نسل کشی کا آغاز کیا جو دو سال تک جاری رہی۔ اس وحشیانہ جارحیت میں 68875 فلسطینی شہید، 170680 زخمی ہوئے اور غزہ کی بیشتر آبادی بے گھر ہو گئی۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تباہ کن جنگ کے بعد غزہ کی تعمیرِ نو کی لاگت تقریباً 70 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہ نسل کشی 10 اکتوبر سنہ2025ء کو نافذ ہونے والے جنگ بندی معاہدے کے بعد رُکی۔