مرکزاطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فائونڈیشن پاکستان
25 دسمبر پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم دن ہے، جب قوم بانیٔ پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کا یومِ پیدائش مناتی ہے۔ اس دن ملک بھر میں تقریبات، سیمینارز، تقاریر اور اخبارات کے خصوصی صفحات قائدِ اعظم کے نام سے مزین ہوتے ہیں۔ مگر یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم قائدِ اعظم کا دن تو مناتے ہیں، لیکن ان کے افکار اور اصولوں پر عمل کرنا بھول جاتے ہیں۔حیرت انگیز نوعیت کی بات تو یہ ہے کہ کچھ عرصہ قبل ہی پاکستا ن کے ایک نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایک ٹی وی چینل کے ساتھ گفتگو میںفلسطین اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے معاملہ پر یہاں تک کہہ دیا تھا کہ قائد اعظم کی بات کون سا قرآن کی آیات ہیں جو تبدیل نہیں کی جا سکتی ہیں۔ نگران وزیر اعظم جو آج بانی پاکستان کے افکار کو اتنا ہلکا سمجھتے ہیں نہیں معلوم کل کو اپنے ذاتی مفادات کے لئے وہ قرآن کی آیات پر بھی سوال اٹھا دیں۔
پاکستان کو ہمیشہ ایسے افراد اور خاندانوں کا سامنا رہاہے کہ جن کےا ٓبائو اجداد نے ماضی میں انگریز کی غلامی کی ہے اور انگریز استعماری سرکار سے مراعات حاصل کی ہیں اس کے بعد سے یہ سلسلہ نسل در نسل اب تیسری نسل تک جاری ہے۔ ایسے افراد نے ہمیشہ پاکستان کے قومی اور اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈالنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی ہے لہذاسابق نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا اسرائیل کے بارے میں سوال کے جواب میں یہ کہنا بھی ایسے ہی لوگوں کی فہرست میں شمار ہوتا ہے جن کو امریکہ اور برطانیہ کو پہلے خوش کرنا ہوتا ہے اور پاکستان کے مفاد کو بعد میں دیکھنا ہوتاہے۔
قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان ایک واضح نظریے، مضبوط اصولوں اور بلند مقاصد کے تحت حاصل کیا۔ ان کا پیغام سادہ مگر جامع تھا: ایمان، اتحاد اور تنظیم۔ وہ قانون کی بالادستی، دیانت داری، انصاف، رواداری اور تعلیم کو ایک مضبوط ریاست کی بنیاد سمجھتے تھے۔ لیکن آج ہمارے قومی رویّے ان اصولوں کے برعکس نظر آتے ہیں۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم قائدِ اعظم کو ایک علامت کے طور پر یاد رکھتے ہیں، ایک رہنما کے طور پر نہیں۔ ان کے افکار کو نصاب، حکمرانی، معاشرت اور قومی پالیسی کا حصہ بنانے کے بجائے ہم نے انہیں تقریبات اور تعطیلات تک محدود کر دیا ہے۔
آج ہم قائد اعظم محمد علی جناح کا دن منا رہے ہیں۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ قائد کے افکار کو پاکستان کی روح کا حصہ بنایا جائے جسے ہم آہستہ آہستہ نکال رہے ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے تعلیم، دیانت داری، رواداری، انصاف اور قانون کی بالا دستی کو ہمیشہ ریاست کی بنیاد سمجھا، انہی اصولوں کی وجہ سے قائد اعظم نے عالم اسلام کے مسائل پر خصوصی توجہ دی۔قائد اعظم نے قیام پاکستان سے قبل اور بعد میں ہمیشہ فلسطین کے لئے ایک اصولی موقف اختیار کیا۔ قائد نے فرمایا پاکستان دنیا بھر کے مظلوموں کے ساتھ کھڑا ہوا گا۔ اسی طرح فلسطین کے معاملہ پر انہوں نے برطانوی استعمار کے فیصلوں کو فلسطینیوں کے ساتھ ناانصافی قرار دیا اور دوسری طرف امریکی صدر ٹرومین کو خط بھی لکھا۔ قائد اعظم اس موقف کے بانی ہیں کہ فلسطین فلسطینیوں کو ملنا چاہیئے اور باہر سے لا کر آباد کئے گئے صیہونیوں کا اس سرزمین پر کوئی حق نہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریک آزادی پاکستان کے ساتھ ساتھ ہمیشہ فلسطینی عوام کی حمایت کی تحریک کو جاری رکھا۔ انہوںنے پوری دنیا کو بتایا کہ فلسطینیوں کے ساتھ عالمی قوتیں ناانصافی کر رہی ہیں۔انہوںنے فلسطینی عوام کے لئے انصاف کا مطالبہ کیا۔ قائد اعظم ایسے اصول پسند رہنما تھے جنہوںنے فلسطینی عوام کی حمایت کے لئے برصغیر میں ہڑتالیں کیں اور فلسطین فنڈ قائم کیا اور فلسطینیوں کی ہر ممکنہ مدد کی۔ آپ ہمیشہ مفتی اعظم فلسطین جناب امین الحسینی کے ساتھ خط وکتابت کے ذریعہ رابطے میں رہے۔
قیام پاکستان کے بعد آپ نے دو ٹوک موقف اپناتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ آپ نےواضح طور پر موقف اپنایا کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے۔اسرائیل ایک ناجائز ریاست ہے ۔آپ نے دوٹوک انداز میں کہا کہ پاکستان کبھی بھی اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گا۔ لیکن اآج افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ قائد اعظم کے نظریہ اور افکار سے رو گردانی ا سقدر بڑھتی جا رہی ہے کہ حکومتی حلقوں میں ایسی آوازیں آتی ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ اگر فلسطین کی آزاد ریاست قائم ہو جائے جبکہ قائد اعظم کے موقف میں ایسی کوئی شرط موجود نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ پاکستان نے قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات کو پس پشٹ ڈال دیا ہے جس کا نتیجہ بہت بھیانک ثابت ہو سکتا ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح کا فلسطین کے حوالے سے مؤقف آج بھی اہمیت رکھتا ہے، کیونکہ یہ اصولوں، انصاف، اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی مثال پیش کرتا ہے۔ یہ مؤقف ہمیں یاد دلاتا ہے کہ خارجہ پالیسی صرف مفادات پر نہیں بلکہ اخلاقی اقدار پر بھی مبنی ہونی چاہیے۔ جو آج ہمارے دفتر خارجہ میں بیٹھے افراد بھول چکے ہیں۔ آج دفتر خارجہ میں بیٹھے لوگوں کو سیاسیات اور دیگر کتابوں سے زیادہ قائد اعظم محمد علی جناح کی تعلیمات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔صرف دن منا کر چھٹی منا کر نہیں بلکہ قائد اعظم کی تعلیمات پر عمل کر کے ثابت کرنا ہو گا کہ یہ پاکستان قائد کا پاکستان ہے۔قائداعظم محمد علی جناح کی فلسطین کے ساتھ یکجہتی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ایک اصول پسند رہنما تھے۔ فلسطین کے مسئلے پر ان کی سوچ آج بھی رہنمائی فراہم کرتی ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور حق کا ساتھ دینا ہر آزاد قوم کی ذمہ داری ہے۔