ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے فریڈم فلوٹیلا پر جارحیت کی تفتیش کے لیے بنائی گئی کمیٹی کی کوئی کریڈیبلٹی نہیں ہے کیونکہ اسے اسرائیلی فوجیوں سے ثبوت طلب کرنے یا کسی بھی طرح کی تفتیش سے روک دیا گیا ہے۔ واچ نے غزہ محاصرے کو اجتماعی ظلم بھی قرار دے دیا۔
ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہ مسلسل چار سال سے غزہ کے محاصرہ کی تنقید کر رہا ہے۔ یہ محاصرہ غزہ کے باسیوں کو اجتماعی سزا دینے کی ایک صورت ہے۔
تنظیم کے مشرق وسطی اور افریقی امور کے شعبے کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ لی وٹسن نے واضح کیا ہے کہ ’’ اسرائیل کے خیال میں کمیٹی آزاد ہے لیکن ساتھ ہی وہ اس کمیٹی کو واقعات کے متعلق اسرائیلی فوج کا بیان من وعن قبول کرنے پر مجبور بھی کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’’ سابقہ واقعات کی تحقیقات میں اسرائیلی فوج کے پرانے ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے یہ بات یقینی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ فوج کی تحقیقات میں غلطی کا امکان بہت زیادہ ہے، لہٓذا اس بات پر یقین نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیلی فوج پر انحصار کرنے والی کمیٹی کی تحقیقات حقیقت حال کو واضح کر سکے گی۔
ہیومین رائٹس نے کہا کہ اسرائیلی فوج کے محاصرے کو غزہ کے شہریوں کے خلاف اجتماعی ظلم اور عذاب کی ایک شکل گردانا جائے گا۔ یہ محاصرہ بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے، انسانی عالمی قوانین اسرائیل کو قابض قوت شمار کر رہے ہیں۔ ہیومین رائٹس کا کہنا تھا کہ محاصرے نے غزہ کی اقتصادیات کو تباہ کرنے کے ساتھ یہاں بسنے والے پندرہ لاکھ افراد کو انتہائی شدید انسانی بحران میں ڈال دیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ نے زور دے کر کہا کہ صہیونی ریاست پر واجب ہے کہ وہ انسانی امدادی اشیا کے غزہ داخلے کے لیے سرحدی پھاٹکوں کو کھولنے کی عالمی کوششوں میں تعاون کرے اور غزہ کی پٹی میں دشوار حالات سے دوچار انسانوں تک ضروریات زندگی کی رسائی ممکن بنائے۔