ایک سال قبل اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کمیٹی کی جانب سے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی سنہ 2008ء کے آخر میں مسلط کردہ وحشیانہ جنگ کے بارے میں تیار کردہ گولڈ اسٹون رپورٹ کو دوبارہ فعال کرنے اور اس کے مطابق کارروائی کے لیے عالمی عدالتوں میں پیش کرنے کے مطالبات تیز ہو گئے ہیں. مرکز اطلاعات فلسطین سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے فلسطینی اورعرب ماہرین قانون اور دانشوروں نےکہا ہے کہ گولڈ اسٹون رپورٹ میں صہیونی جنگی جرائم کو بے نقاب کیا گیا ہے. فلسطینیوں کے لیے یہ رپورٹ انصاف کی کنجی کی حیثیت رکھتی ہے. فلسطینی تجزیہ نگار ولید نےمرکز اطلاعات سے گولڈ اسٹون بارے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کو اس کی تمام تر سفارشات کی روشنی میں عمل درآمد کے لیے پیش کیا جانا چاہیے تھا. ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی اسرائیل نوازی اور امریکا کی بلا جوازحمایت نے گولڈ اسٹون کی رپورٹ پرعمل درآمد میں رکاوٹ پیدا کی. فلسطینی دانشور کا کہنا تھا کہ گولڈ اسٹون کی رپورٹ اسرائیل کے لیے ایک حقیقی مسئلہ ہے اور اسرائیل کی پوری کوشش ہے کہ یہ رپورٹ غیرفعال رہے اور اس پرعمل درآمد کی کوئی کوشش نہ کی جائے. ایک دوسرے سوال کے جواب میں ولید کا کہنا تھا کہ عالمی برادری فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے میں بری طرح ناکام رہی ہے. گولڈ اسٹون رپورٹ پرعمل درآمد کی صورت میں فلسطینیوں کو انصاف ملنے کی توقع کی جا رہی تھی لیکن عالمی برادری بھی شش و پنج کا شکار رہی. ایک دوسرے فلسطینی تجزیہ نگار اور المیزان مرکز برائے فلسطینی حقوق کے ڈائریکٹر عصام یونس نے کہا کہ گولڈ اسٹون رپورٹ پر جلد ازجلد عمل درآمد ہو گا. انہوں نے کہا کہ رپورٹ کو سرد خانے میں ڈالنے والوں میں وہ طاقتیں بھی شامل ہیں جوایک طرف فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت کے دعوے کرتی ہیں اور دوسری جانب عملاً اسرائیل کی حمایت کرتی ہیں.