ایک ہفتہ قبل صہیونی وزیراعظم نتانیاہو کے پیغام کے ساتھ ہی الخراب نامی کنیسے کا افتتاح ہوا اور صہیونیوں نے افتتاحی تقریب ناچ گانے اور خوشی و شادمانی کے ساتھ منعقد کی؛ اس وقت سے ایک ہفتہ گذر چکا ہے اور ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ان ہی دنوں میں مسجد الاقصی ڈیڑھ ارب مسلمانوں کے قبلہئ اول مسجد الاقصی کو شہید کیا جارہا ہے اور اس کے ویرانے پر ہیکل سلیمانی کی بنیاد رکھی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق الخراب کنیسے کی گنبد نیلے رنگ کی ہے اور اس کی اونچائی چوبیس میٹر رکھی گئی ہے اور اس کا فاصلہ مسجدالاقصی کی مغربی دیوار سے چند ہی میٹر ہے۔
یہ بات کسی غیر نے نہیں بلکہ کنیسہ بنانے والے انتہاپسند غاصب صہیونیوں نے کہا ہے کہ منگل 24 مارچ 2010 مسلمانوں کی عمومی عزا کا دن ہے وہی دن جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے ان کا قبلہئ اول ویران کیا جائے گا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے آغاز معراج کے مقام کا ملبہ اٹھایا جائے گا تو اس کی نچلی تہہوں سے معبد سلیمانی کی دیواریں برآمد ہونگی؟ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اس وقت یہ ڈیڑھ ارب مسلمان کہاں ہونگے؟ کیا وہ زندہ ہونگے؟ کیا وہ مسجد الاقصی کے لئے مرنے کے لئے تیار ہوجائیں گے؟ کیا انہیں مسلمانوں کی تکفیر اور مسلمانوں کا خون بہانے کز منصوبوں سے فرصت ملے گی؟!
حال ہی میں بعض صہیونی ذرائع نے کسی یہودی رابی کی ایک “پیشین گوئی” کا حوالہ دے کر تشہیر کی ہے کہ “ایک ہلکا سا زلزلہ 16 سے 24 مارچ 2010 کے درمیان قدس کے علاقے میں ہوگا جس سے مسجد الاقصی گر کر تباہ ہوجائے گی” اسی اثناء میں مقبوضہ قدس کی یہودی عبادتگاہوں میں ہیکل سلیمانی کے مادل (مورت) تقسیم ہورہی ہیں جن پر تاکید کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ یہ معبد مسجدالاقصی کے ویرانے پر تعمیر ہوگا ان کا کہنا ہے کہ مسجدالاقصی ہیکل سلیمانی کے ویرانی پر تعمیر کی گئی ہے! وہ یہ سب کچھ یہ جتانے کے لئے کررہے ہیں کہ گویا قدس یہودیوں سے تعلق رکھتا ہے۔
صہیونیوں کی اس گستاخی پر اعتراض کے حوالے سے مظاہروں کا آغاز مقبوضہ بیت المقدس سے ہوا ہے اور ترکی اور بعض دیگر ممالک میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں۔ عرصہئ دراز سے بھوک، پیاس اور ناکہ بندی کا شکار اہالیان غزہ نے بھی زبردست مظاہرے کئے ہیں مگر مسئلہ فلسطین کو نام نہاد خادم الحرمین الشریفین سمیت عربی مسئلے میں تبدیل کرنے والے عرب حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور غیر عرب مسلم حکمران شاید اپنے اقتدار کی حفاظت کی چکر میں امریکہ کے اشارے کا انتظار کررہے ہیں اور واشنگٹن کی ناراضگی سے بچنے کے لئے وہ بھی عرب حکمرانوں کا قد آدم عکس بن کر نظر آرہے ہیں۔
مغربی پٹی میں کل کئی مسلمان نوجوان اسی سلسلے میں صہیونی ریشہ دوانیوں پر احتجاج کرتے ہوئے صہیونی پولیس کے ہاتھوں جام شہادت نوش کرگئے ہیں اور غیرقانونی صدر بہائی و صہیونی اتحاد کی علامت جناب محمود عباس ابو مازن ابھی تک صہیونیوں کے ساتھ بات چیت کی کوشش کررہا ہے۔
مظاہروں کو کچلا جارہا ہے اور قدس صہیونی افواج کے گھیرے میں ہے۔
سوئے ہوئے مقدر کے مالک مسلمانو سوجاؤ صہیونی جاگ رہے ہیں۔
ہاں البتہ مقبوضہ فلسطین کے شمال میں ایک چھوٹا سا ملک جاگ رہا ہے اور اس ملک یعنی لبنان کے ملٹری انٹیلجنس نے 4 صہیونی جاسوسی نیٹ ورکس پکڑ لئے ہیں اور ان کے سرغنی گرفتار ہوگئے ہیں۔
گرفتار افراد نے کہا ہے کہ موساد اور بعض مغربی ممالک کے فوجی افسران کے ساتھ ان کے قریبی رابطے تھے۔
یہ لوگ لبنانی فوج کے اقدامات اور اس کے اڈوں کی معلومات صہیونیوں کو فراہم کرتے تھے اور نہایت جدید الیکٹرانک وسائل سے لیس تھے۔
لبنانی، گرفتار افراد کے دیگر ساتھیوں کی گرفتاری کے لئے چھاپے مار رہے ہیں۔ ان افراد کو اٹھارہ تا 25 فروروی کے درمیان گرفتار کیا گیا ہے۔
صہیونیوں کے ہاتھوں غصب ہونے والے شہر قدس کے لوگ بھی جاگ رہے ہیں۔ انھوں نے وسیع مظاہروں یا بالفاظ دیگر تیسری انتفاضہ تحریک کا آغاز کیا ہے اور غزہ میں فلسطین کی منتخب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ قدس کے مظاہروں میں صہیونیوں نے 250 فلسطینی مظاہرین کو اغوا کرلیا ہے۔ یہ لوگ مسلمانوں کے قبلہئ اول کا دفاع کرتے ہوئے گرفتار ہوئے ہیں۔ اغوا ہونے والوں میں 14 سال سے کم 30 فلسطینی بچے بھی شامل ہیں جنہیں دیگر مسلمانوں کے ہمراہ صہیونی عقوبت خانوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
موصولہ رپورٹوں کے مطابق ان میں سے بعض افراد آزار و اذیت اور توہین و تذلیل کے بعد بھاری جرمانے ادا کرکے رہا ہوگئے ہیں۔
کئی سرکردہ لوگوں کو گھروں میں نظر بند کیا گیا ہے اور 15 سرکردہ افراد کو 15 روز کے لئے بیت المقدس سے جلاوطن کیا گیا ہے۔ شاید 24 مارچ والی بات درست ہے! ورنہ 15 دن کی جلاوطنی کا کیا مطلب ہوسکتا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق فلسطینی مسلمانوں کے اغوا میں صہیونیوں کو محمود عباس کی فورسز کی حمایت بھی حاصل ہے۔
محمود عباس کے عرب گماشتے فلسطیینوں کے ساتھ مل کر صہیونیوں کی طرف پتھر پھینکتے ہیں، مجاہدین کی جاسوسی کرتے ہیں اور موقع پاکر انہیں گرفتار کرتے ہیں اور صہیونیوں کے سپرد کردیتے ہیں۔
صہیونی حال ہی میں قدس کو یہودی بنانے کے لئے اپنے عمل میں تیزی لائے ہیں اور مسجد الاقصی میں کھدائیوں کا سلسلہ بھی تیز کردیا گیا ہے تا کہ مبیینہ زلزلے کی صورت میں اس کی بنیادیں سست ہوں مکمل طور پر تباہ ہوجائے۔ وہ الخلیل میں حرم ابراہیمی کو یہودی ورثے کا حصہ قرار دے چکے ہیں اور بیت اللحم میں مسجد بلال بن رباح کو بھی یہودی ورثہ قرار دینے کے درپے ہیں۔
صہیونی اپنا کام کررہے ہیں لیکن کیا مسلمان بھی اپنے اسلامی فریضے پر عمل کررہے ہیں؟