Connect with us

اسرائیل کی تباہی میں اتنا وقت باقی ہے

  • دن
  • گھنٹے
  • منٹ
  • سیکنڈز

Palestine

’ہماری ہڈیاں توڑنا صہیونی جلادوں کے لیے تفریح تھی،‘ صہیونی زندانوں سے لوٹنے والے اسیران کے روح فرسا انکشافات

غزہ ۔ (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ لوگ ابھی ابھی قبروں سے زندہ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں ۔ ہڈیوں کا ڈھانچہ بنے جسم، زرد و پژمردہ چہرے، بکھرے بال، زخموں سے بھرا بدن، ہاتھوں، پیروں اور چہروں پر گہرے نشانات، خوف زدہ آنکھیں جو روشنی برداشت نہیں کر پاتیں اور ایک ایسی نفسیاتی شکستگی جو انہیں حقیقت سے نظریں ملانے سے روکتی ہے۔

یہ مناظر ان فلسطینی اسیران کے ہیں جو قابض اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے بعد رہائی پائے۔ ان کی حالت ایسی تھی کہ گویا وقت نے ان پر بیس تیس برس ایک ساتھ گرا دیے ہوں۔ ان کے چہرے بتاتے تھے کہ صہیونی زندانوں میں گزرے ایام نے ان کی روحوں کو جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ رہائی کے بعد جب وہ بولنے لگے تو الفاظ ان کا ساتھ نہ دے سکے، زبانیں لرز گئیں، اور اذیت کی شدت بیان سے باہر ہو گئی۔

ان میں سے کئی ایسے تھے جو بیماریوں اور زخموں کے بوجھ تلے دبے ہوئے نکلے، جنہیں قابض اسرائیل نے دانستہ طور پر علاج سے محروم رکھا۔ وہ اپنے پیچھے رہ جانے والے رفقا کے لیے تڑپ رہے ہیں، ان کی آزادی کے لیے پکار رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صہیونی جیلوں میں فلسطینی روزانہ ہزار بار مرتے ہیں ۔بھوکے، پیاسے، جسمانی اور نفسیاتی اذیتوں میں ڈوبے، اپنی عزت پر حملے سہتے ہوئے، گالیوں، دھمکیوں اور نفسیاتی جنگوں کے نشانے پر۔

ناقابلِ بیان اذیتیں

رہا ہونے والے اسیر ناجی الجعفراوی جب زندان کے اندھیروں سے باہر آئے تو سب چہروں میں اپنے بھائی صالح کا چہرہ تلاش کیا۔ مگر صالح اب زندہ نہ تھے۔ چند گھنٹے پہلے ہی وہ غزہ میں قابض فوج کی ایجنٹ قاتل ٹولیوں کے ہاتھوں شہید ہو چکے تھے۔

حافظ قرآن ناجی خوبصورت آواز میں تلاوت کرتا ہے اور دینی درس و خطبے دیتا رہا ہے لرزتی آواز میں کہتا ہےکہ
“قید و بند کی وہ کیفیت الفاظ سے بیان نہیں ہو سکتی۔ جیل کو کوئی بیان نہیں کر سکتا کیونکہ وہاں کی حقیقت بیان سے باہر ہے”

وہ کہتا ہےکہ “جیل کا حال الفاظ میں سمیٹا جا سکتا ہے، نہ عبارتوں میں۔ وہاں کے عذاب کی گہرائی کو کوئی بلیغ زبان بیان نہیں کر سکتی۔ ہم تو گویا زمین کے پیٹ میں دفن تھے، زندہ مگر مردہ، اندھیروں کے اس گڑھے میں کہ جہاں وقت رُک گیا تھا”۔

ناجی بتاتا ہے کہ اسے سو دن سے زیادہ آنکھوں پر پٹی باندھ کر ہاتھ پیچھے باندھ کر بٹھائے رکھا گیا۔ “ہمیں بیت الخلا جانے کی اجازت ہر دو دن میں ایک بار ملتی، اگر قسمت سے موقع ملتا۔ ہمیں جوتوں تلے روندنا ان کا معمول تھا”۔

وہ کہتا ہے “ہم موت کے اندھیروں سے نکلے ہیں، قبروں سے نکلے ہیں، برزخ کی زندگی سے واپس آئے ہیں۔ ہم نہیں جانتے تھے کہ واپس لوٹیں گے یا نہیں، مگر ہمیں یقین تھا کہ اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا”۔

بھوک، بیماری اور تشدد کی داستان

“میں ٹھیک نہیں ہوں،بالکل نہیں۔ ہمیں دو برس سے بھوکا رکھا گیا۔” یہ الفاظ صحافی اسیر شادی ابو سیدو کے ہیں جو رہائی کے بعد بھی خوف و درد سے کانپ رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ رہائی سے چند لمحے پہلے تک بھی ان پر تشدد جاری رہا۔

وہ چیخ کر کہتے ہیں کہ “پورا جیل عذاب ہے۔ ہڈی توڑنا ان کا معمول ہے۔ میری کلائیاں توڑ دیں، پسلیاں چکناچور کر دیں۔ ہمیں توڑنے کے لیے وہ ‘ہڈی توڑ پالیسی’ استعمال کرتے تھے”۔

ابو سیدو جو “فلسطین الیوم”کے فوٹو گرافرہیں بتاتے ہیں کہ قابض اسرائیل نے انہیں بغیر علاج کے چھوڑ دیا۔ “میری آنکھ سے خون بہتا رہا کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر سر اور آنکھوں پر مارا”

اس نے بتایا کہ تفتیش کاروں نے دانستہ اس کی آنکھوں کو نشانہ بنایا کیونکہ وہ فوٹوگرافر تھا۔ ایک تفتیش کار نے مجھ سے کہا کہ میں تمہاری آنکھ ایسے نکالوں گا جیسے تمہاری کیمرہ کی آنکھ سے غزہ کے مظالم نکلوا لیتا تھا”۔

جب وکیل سحر فرنسس نے اسے دیکھا اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو اطلاع دینے کی بات کی تو ابو سیدو نے کہا کہ
“انسانی حقوق کی نہیں، حیوانوں کے حقوق کی تنظیموں کو بتاؤ۔ شاید ان سے کچھ رحم مل جائے۔ انسانوں کے اداروں میں تو دل نہیں رہے”۔

وہ کہتا ہے “میں دو برس سے بھوکا ہوں۔ قید سے پہلے بھی بھوکا تھا، قید میں بھی بھوکا رہا اور اب رہائی کے بعد بھی بھوکا ہوں”۔

صہیونی زندانوں میں نسل کشی

یہ دل دہلا دینے والی گواہیاں محض چند مثالیں ہیں ان مظالم کی جو قابض اسرائیل کی جیلوں میں فلسطینیوں پر ڈھائے جا رہے ہیں۔ یہ وہی نسل کشی ہے جو غزہ کے شہریوں پر کی جا رہی ہے، فرق صرف دیواروں کا ہے۔

کلب برائے اسیران کے مطابق سات اکتوبر کے بعد سے اب تک صہیونی جیلوں میں ستتر فلسطینی قیدی شہید ہو چکے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اذیت، بھوک اور علاج کی کمی کے سبب دم توڑ گئے۔

اقوامِ متحدہ کی سابقہ رپورٹس میں بھی رہائی پانے والے قیدیوں، وکلا اور تصویری شواہد کی بنیاد پر بتایا گیا ہے کہ ان جیلوں میں زدوکوب، برہنہ تلاشی، مشقت آمیز پوزیشن میں بٹھانا، طویل قیود اور تذلیل معمول کی بات ہے۔

زندانوں کی حالت ایسی ہے کہ قیدی سانس تک لینے سے قاصر رہتے ہیں۔ روشنی، نہ صفائی، نہ ادویات ، بنیادی انسانی ضرورتیں تک سلب کر لی گئی ہیں۔

یہ سب بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ معاہدہ برائے انسدادِ تشدد، بچوں کے حقوق کے عالمی معاہدے اور انسانی و بین الاقوامی انسانی قانون کی صریح پامالی۔

الشفاء ہسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد ابو سلمیہ کے مطابق رہائی پانے والے اسیران انتہائی کمزور، نفسیاتی طور پر ٹوٹے ہوئے اور جسمانی طور پر مفلوج حالت میں لائے گئے۔ کئی ایسے ہیں جن کے ہاتھ یا پاؤں صہیونی قید میں طبی لاپرواہی سے ضائع ہو گئے۔

ان کا کہنا ہے کہ بیشتر اسیران جنگ کے دوران زخمی ہوئے تھے مگر جیل میں کسی قسم کا علاج نہیں دیا گیا۔ رہائی پانے والوں میں کئی ایسے ہیں جنہیں فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔

آج ہم ان زندہ لاشوں کے بارے میں لکھ رہے ہیں جو قبروں سے لوٹ آئے ہیں۔ وہ قیدی جو مزاحمت کی صف میں اپنی قربانی دے کر لوٹے مگر پیچھے وہ رہ گئے جو اب بھی صہیونی عقوبت خانوں میں زندگی اور موت کے بیچ لٹک رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا وہ بھی لوٹ پائیں گے یا ہم ایک دن خبر پائیں گے کہ ہم نے انہیں ہمیشہ کے لیے کھو دیا ہے؟

 

Click to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Copyright © 2018 PLF Pakistan. Designed & Maintained By: Creative Hub Pakistan