سترہ مئی فلسطین میں اسلامی تحریک کے بانی ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی کی شہادت کا دن ہے۔ وہ اگرچہ اب اس دنیا میں نہیں مگران کے عہد کے بچے جو آج جوان ہو چکے ہیں۔ آج کے دور کے یہ جوان انہیں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شجاعت و بہادری کی نئی تاریخ رقم کر رہے ہیں۔ انہیں شہید رہ نما کی طرح فتح کا یقین واثق ہے۔
ہر لحظہ ہے مومن کی نئی شان نئی آن
اکٹرعبد العزیز الرنتیسی شہید کے مدرسہ سے “ہم جیتِں گے” کا درس حاصل کرنے والے ابو یحیی نے مرکز اطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں نے جو وقت ان کے ساتھ گذرا اس میں کبھی بھی انہیں سیٹلائٹ ٹی وی چینلز پر جذباتی خطبے دیتے نہیں سنا۔ اس کے مقابلے میں نے ڈاکٹر الرنتیسی شہید میں بلا کی شجاعت دیکھی۔ منبر و محراب سے لیکر ٹی وی چینلز تک میں ان کا محوز و مرکز عوام ہی تھے۔ وہ بغیر کسی لگی پٹی کے بات کرنے کے عادی تھے۔
الرنتیسی اور اسیران
پابند سلاسل فلسطینیوں کے حقوق کے لیے جد وجہد کرنے والے متحرک کارکن ابو صہیب ذہن پر آج صرف دو یادیں ہی سوار ہیں۔ پہلی بات تو یہ آج فلسطینی اسیران کا دن ہے۔ آج کے دن کے دوسری اہم بات مجاہد اور جری ڈاکٹر عبدالعزیز الرنتیسی کی شہادت کی چھٹی برسی کی یاد ہے۔
ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے ابو صہیت کا کہنا تھا کہ ’’ ڈاکٹر الرنتیسی نے قیدیوں کے حقوق کی خاطر بہت زیادہ کام کیا۔ مجھے یاد ہے کہ اپنی شہادت کے دن بھی وہ صبح کے وقت یوم اسیران کی مناسبت سے ہونے والے متعدد پروگراموں میں شریک رہے۔ یوم اسیران پر انہوں نے فلسطینی قیدیوں سے پرجوش خطاب کیا اور عین اسی روز وہ فلسطینی قوم کو غم زدہ چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے
فقید المثال شخصیت
اپنے چہرے کو گھنی سفید داڑھی سے مزین کیے ہوئے ابو احمد نے ڈاکٹر رنتیسی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ شہید الرنتیسی ایک ڈاکٹر، شاعر، استاد، قائد اور ایک عظیم انسان تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے دنیا میں کسی کو الرنتیسی سے زیادہ تکالیف اور دکھوں میں نہیں دیکھا مگر اس سب کے باوجود وہ شعر، خطابت اور دیگر کئی شعبوں میں بھرپور حصہ لیتے تھے۔ ابو احمد نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آہ! ہماری دعا ہے کہ اللہ انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائیں۔ وہ ہمارے استاد، شیخ اور رہنما تھے۔
ایک فلسطینی بزرگ نے ڈاکٹر الرنتیسی کے بارے میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عملی طور پر وہ ایک فقید المثال شخصیت تھے۔ حماس کی قیادت میں ان جیسی مثالیں اب بھی موجود ہیں۔ میرے خیال میں وہ نیک سیرتی، قائدانہ صلاحیت اور حسن معاملہ کی ایک شاندار مثال تھے۔
شہید الرنتیسی بچے، بوڑھے، مرد و عورت الغرض کسی بھی فلسطینی کے ذہن سے محو نہیں ہو سکتے۔ وقت اور حالات کے تھپیڑے ڈاکٹر الرنتیسی اور ان جیسے دیگر قائدین کو فلسطینی قوم سے دور نہیں لے جا سکتے۔ ہر اہم موقع پر فلسطینی اپنے ان پیارے محسن رہنماؤں کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔