نیویارک (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن ) امریکہ نے جمعرات کی شب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ بندی کی قرارداد کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے اسے ناکام بنا دیا۔
یہ قرارداد سلامتی کونسل کے 14 رکن ممالک کی حمایت سے پیش ہوئی تھی، جن میں دو سال کے لیے منتخب ہونے والی دس ریاستیں بھی شامل تھیں، لیکن واشنگٹن کے ویٹو نے قرارداد کو مسترد کر دیا۔
اس قرارداد کو دس رکن ممالک نے پیش کیا تھا جس میں غزہ میں فوری جنگ بندی اور تمام یرغمال بنائے گئے افراد کی غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
قرارداد میں اس بات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی کہ قابض اسرائیل کے حملوں کے نتیجے میں شہریوں کی مشکلات بڑھ گئی ہیں، قحط کی وبا پھیل رہی ہے اور غزہ شہر پر جارحیت تیز ہو چکی ہے۔
اقوام متحدہ میں امریکہ کی نمائندہ مورگن اورٹاگس نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ ان کا ملک اس قرارداد کو مسترد کرتا ہے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ قرارداد اسرائیل اور حماس کو ایک ہی صف میں کھڑا کرتی ہے اور زمینی حقائق کو تسلیم نہیں کرتی۔
امریکی نمائندہ نے دعویٰ کیا کہ قابض اسرائیل نے جنگ کے خاتمے کی شرائط مان لی ہیں جبکہ حماس انکار کر رہی ہے، ان کے بقول حماس کو چاہیے کہ اپنے قبضے میں موجود قیدی رہا کرے اور فوری طور پر ہتھیار ڈال دے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ غزہ میں انسانی امداد نہ پہنچنے کی ذمہ داری حماس پر ہے جو شہریوں کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
اس کے برعکس ڈنمارک کی نمائندہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ غزہ میں فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ غزہ میں قحط ایک سنگین حقیقت ہے اور ان ممالک کا مطالبہ ہے کہ امدادی سامان کو فوری طور پر غزہ کی پٹی میں داخل ہونے دیا جائے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ نے سلامتی کونسل میں کئی ایسی قراردادیں ناکام بنائیں جو غزہ پر جاری جنگ کو روکنے کے لیے پیش کی گئی تھیں۔