غزہ، (مرکز اطلاعات فلسطین فاؤنڈیشن)
غزہ کی پٹی میں پانی کا بحران سنگین ترین مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جو قابض اسرائیل کی جاری جارحیت کے بدترین نتائج میں سے ایک ہے۔ صہیونی بمباری نے پانی اور نکاسی آب کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے۔ جیسے جیسے ہزاروں خاندان اپنے تباہ شدہ محلوں میں واپس لوٹ رہے ہیں، وہ شدید پیاس اور پینے کے پانی کی مکمل بندش کے باعث زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں، جہاں انہیں غیر محفوظ اور محدود ذرائع پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔
نلکوں سے پانی کے بہاؤ کے رک جانے کے بعد شہری مجبور ہیں کہ بھاری قیمتوں پر ٹینکروں یا چھوٹے ڈی سیلینیشن پلانٹس سے پانی خریدیں، جو بمشکل عارضی جنریٹروں پر چل رہے ہیں۔ یہ قیمتیں ان خاندانوں کی پہنچ سے باہر ہیں جن کا ذریعہ معاش جنگ میں ختم ہو چکا ہے۔
تباہ شدہ گلیوں میں مرد، عورتیں اور بچے پانی کی بوتلیں اٹھائے دھوپ میں میلوں چلتے دیکھے جا سکتے ہیں۔ پانی کی تلاش ان کے لیے ایک اذیت ناک روزمرہ جدوجہد بن چکی ہے۔
بیشتر گھروں میں پانی کو بوند بوند تقسیم کیا جاتا ہے تاکہ صرف پینے اور کھانا پکانے کی ضرورت پوری ہو سکے، جبکہ نہانے یا کپڑے دھونے کا تصور محال ہے۔ غزہ کا یہ پانی کا بحران اب ایک خوفناک انسانی المیہ بن چکا ہے، جہاں پانی محض ایک بنیادی ضرورت نہیں رہا بلکہ بقا کی جنگ بن گیا ہے۔
زندگی کی سختی ہر گوشے میں
غزہ شہر کے رہائشی طارق عواد کا گھر قابض اسرائیلی حملوں میں ملبے کا ڈھیر بن گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ اب پانی کا حصول ان کی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ وہ دور دراز علاقوں سے پانی لانے پر مجبور ہیں یا ان ٹرکوں کے پیچھے بھاگتے ہیں جو تباہ شدہ محلوں میں پانی تقسیم کرتے ہیں۔ کبھی کبھار وہ مہنگے داموں ڈی سیلینیشن پلانٹس سے پانی خریدتے ہیں، بشرطیکہ بجلی موجود ہو کیونکہ بجلی کی بندش نے بیشتر پلانٹس کو مفلوج کر رکھا ہے۔
طارق نے بتایا کہ جنگ سے قبل وہ اپنے پڑوسی کے کنویں سے پانی لیتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ “ہم ایندھن خریدنے کے لیے چندہ جمع کرتے تھے تاکہ موٹر چلا کر پانی حاصل کر سکیں۔ یہ احساس ہوتا تھا کہ ہم زندگی کی رمق برقرار رکھے ہوئے ہیں۔”
جنگ بندی کے بعد جب طارق اپنے محلے شیخ رضوان واپس لوٹے تو منظر ہولناک تھا۔ دس میں سے نو مکانات ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔ ان کا واحد پانی کا ذریعہ، پڑوسی کا کنواں، تباہ ہو چکا تھا۔
طارق بتاتے ہیں کہ “ہم نے کنویں کا پمپ درست کرنے کی کوشش کی۔ لوگوں نے ایندھن کے لیے چندہ جمع کیا، مگر چند دن بعد موٹر جل گئی اور سب کچھ رک گیا۔”
وہ آہ بھرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “غزہ کا ہر کونا اذیت سے بھرا ہے۔ لیکن اگر پانی ہو تو زندگی قدرے قابلِ برداشت لگتی ہے، کیونکہ پانی کے بغیر نہ صفائی ممکن ہے، نہ کھانا، نہ زندگی۔”
غزہ کی زیرِ زمین پانی کی تہہ بھی اب آلودہ ہو چکی ہے، کیونکہ سمندری پانی اور نکاسی آب کا گندہ پانی تباہ شدہ نظام کے باعث زیرِ زمین سرایت کر گیا ہے۔
ناممکن بنتی ذمہ داریاں
مریم اسماعیل، جو غزہ کی ایک نوجوان طالبہ ہیں، تھکے لہجے میں کہتی ہیں کہ “ہمارے ہر کام کا دارومدار پانی پر ہے، بلکہ اب اس کی غیر موجودگی پر۔ نہ کپڑے دھو سکتے ہیں، نہ برتن، نہ بچوں کی صفائی۔ یہ سب کچھ اب تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔”
وہ بتاتی ہیں کہ قابض اسرائیلی جارحیت کے بعد پانی کی باقی ماندہ لائنیں تباہ ہو چکی ہیں، جبکہ چند کنویں جو بچے تھے وہ نکاسی آب کی آلودگی سے زہریلے بن گئے۔ نمکین اور ریت آلود پانی اب ایک خطرناک صحتی بحران بن چکا ہے۔
مریم کہتی ہیں کہ “یہ بحران نیا نہیں، مگر اب مکمل تباہی کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ غزہ میں اب کوئی مؤثر پانی کا نظام باقی نہیں۔ پمپ خراب، ٹینک تباہ اور ڈی سیلینیشن پلانٹس ایندھن کے بغیر بند پڑے ہیں۔ ہم جو مل جائے اسی پر زندہ ہیں، بعض اوقات کئی دن پانی نظر نہیں آتا۔”
مریم کے جزوی طور پر تباہ شدہ گھر میں 15 افراد رہتے ہیں جو تھوڑے سے پانی کو پینے اور کھانا پکانے کے لیے بانٹ لیتے ہیں۔ نہانا اور کپڑے دھونا ہفتوں کا منصوبہ بن چکا ہے۔
وہ بتاتی ہیں کہ بچے جلدی امراض اور انفیکشن کا شکار ہو رہے ہیں۔ پانی کو بار بار ابالنے کے باوجود اس کا ذائقہ نمکین اور باسی سا رہتا ہے۔
پھر بھی وہ ہمت نہیں ہارتی۔ روزانہ صبح وہ دو کلومیٹر دور ایک چھوٹے ڈی سیلینیشن پلانٹ سے پانی بھرنے جاتی ہیں جسے ایک ایسا خاندان چلاتا ہے جس نے اپنے بیٹے کو قابض بمباری میں کھو دیا۔ مریم اسے “پوری بستی کی زندگی کی آخری سانس” کہتی ہیں، کیونکہ وہ پلانٹ چند گھنٹے ہی کام کر پاتا ہے۔
جزوی حل، بڑے مسائل
غزہ میں محکمۂ پانی کے منصوبہ جات کے ڈائریکٹر سعدی علی کے مطابق، انتظامیہ صہاریج کے ذریعے پانی کی فراہمی، ڈی سیلینیشن پلانٹس کے قیام اور اضافی پانی کے مراکز قائم کرنے پر کام کر رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 12 کنویں دوبارہ فعال کیے گئے ہیں، جن میں 7 غزہ شہر میں ہیں۔ تاہم اصل رکاوٹ قابض اسرائیل کی جانب سے گذرگاہوں کی بندش اور مرمت کا سامان اندر آنے سے روکنا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق قابض اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 112 پانی کے ذخائر کو نشانہ بنایا اور 720 کنویں تباہ کر کے انہیں ناکارہ بنا دیا۔
غزہ میں پانی کا بحران اب صرف ایک سروس یا انفراسٹرکچر کا مسئلہ نہیں بلکہ مکمل انسانی المیہ بن چکا ہے۔ غربت، بے روزگاری، محاصرے اور قحط کے درمیان پانی کی کمی نے شہریوں کی روزمرہ زندگی کو اجیرن کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق، جنگ سے قبل ہی غزہ کا 95 فیصد پانی انسانی استعمال کے قابل نہیں تھا۔ آج وہی پانی دو ملین سے زائد انسانوں کے لیے زندگی اور موت کا سوال بن چکا ہے۔ پانی کی ہر بوند اب ان کے لیے بقا کی جنگ ہے۔